اسلامی تہوار محض انفرادی خوشی کانام نہیں
قارئین کرام : آج مسلمانوں کا بڑا طبقہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے دنوں حد درجہ جہالت شکار ہوتا ہوا دیکھائی دیتا ہے بالخصوص اپنے یہاں بعض ایسے بھی لوگ ہیں جو عید کی خوشی اپنے ہی گھر اور اپنے بال بچوں تک محدود کرلیتے ہیں انہیں ہمدردی صلہ رحمی بھائی چارگی سے کوئی سروکار نہیں! اسی طرح کولکاتا کے بعض علاقوں میں تو اسلامی تہوار کے ایام میں بجائے اس کے کہ اپنی خوشیاں بانٹتے بڑا بڑا پنڈال سجایا جاتا ہے اور بعض پنڈالو میں تو رقص اور گاجے باجے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جبکہ ایک پڑوسی نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کرہا ہے !
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس منکر کی بیخ کنی کے لئے اب تک کسی کی طرف سے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا
حیرت اور غیرت کی بات یہ ہے کہ جب راقم نے ایک مربی شخص سے دریافت کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ عید کی خوشی ہے
قارئین کرام ؛ بہرحال اسلام ہمیں عید الفطر ہو یا عید الاضحٰی اسراف وتبذیر سے منع کرتا ہے کیونکہ اسلام نے تہواروں کو عیش و طرب کا نمونہ نہیں رکھا کہ اخلاقی قدروں کو بہا لے جائے اور انسان کے روحانی تقاضوں سے متصادم ہو ،بلکہ ان میں عبادت کے ایسے پرجوش مظاہر رکھے ہیں ، جو روحانیت وللہیت اور صدق وخلوص کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں اسلامی حدود و قیود کے ساتھ منائی جانے والی عیدیں پاپی طبیعتوں میں خدا پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہیں اور انسان کے جذبۂ عمل صالح کو مہمیز بخشتی ہیں۔ چنانچہ تک اسلامی معاشرہ اور تہذیب اپنے طمطراق سے قائم تھی، اسلامی تہواریں اُن پر اپنا روحانی اثر ثبت کرتی رہیں اور مسلمانوں کی روحانی غذاکا سامان بنتی رہیں۔ باطنی صفائی کے ساتھ تہواروں میں ظاہری طہارت ونظافت کا درجہ بھی’’عبادت‘‘ہے۔ وضو،غسل ،صاف ستھرا لباس، خوشبو، مسواک اور دیگر نظافتیں انسان کے ظاہر کو نکھارتی ہیں۔ اسلامی تہواروں میں طہارت و نظافت کے حصول کوباعث اجر وثواب بتایا گیا ہے،جس کے حصول میں ایک طرف ظاہر کی آراستگی ہے اور دوسری طرف اس کے باطن پر پڑنے والے اثرات ہیں ،کیونکہ ظاہر کی صفائی کا تزکیۂ باطن پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ اتحاد ویگانگت اسلامی تہواروں میں اجتماع ومجامع کے مظاہر وجوبی حیثیت رکھتے ہیں، دونوں تہواروں میں نماز عید کو ’’بڑے مجمع‘‘کے ساتھ ادا کرنا واجب رکھا گیا ہے، ایک طرف یہ اجتماعی عبادت رحمتِ الٰہی کی توجہ کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف اسلامی معاشرے کے تمام طبقات کو اکٹھا ہونے اور اتحاد ویگانگت کے مظاہرہ کا سنہری موقع بھی بہم پہنچاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں تہواروں سے پہلے جن عبادات کی تکمیل ہوتی ہے، ان میں بھی اجتماع کی شان نمایا ہے
عیدالفطر سے قبل تراویح کی اضافی عبادت کو سنت مؤ کدہ رکھا گیا ہے،اس کی ادائیگی اجتماعی ہیئت کے ساتھ ہوتی ہے اور چونکہ سال بھر میں صرف ایک مہینہ ہوتی ہے، اس لیے اجتماع کا جوش وخروش اور باہمی اُلفت و یگانگت ممتاز دکھائی دیتی ہے، جبکہ عیدالاضحی سے قبل حج کی تکمیل ہوتی ہے ، جو دنیا میں رائج تمام تہذیبوں اور ملتوں میں کسی ملت کا سب سے بڑا، منظم اور عالمگیر اجتماع ہے، دنیا بھر کے لاکھوں مسلمان بلا تفریقِ رنگ ونسل اور زبان و وطن ایک ہی معمول پر ،ایک ہی مکان میں اور ایک ہی وقت پر اکٹھے ہو کر جہاں عظیم دینی عبادت کی تکمیل کرتے ہیں ،وہاں نظم وضبط،ترتیب و نسق اور اتحاد ویگانگت کی وہ مثال پیش کرتے ہیں،جس کا مظاہرہ اسلامی تہذیب کے سوا کہیں نہیں ملتا۔ان مجامع کے اتحاد کا اثراسلامی معاشرے پر انتہائی دیرپا اور مؤثر انداز میں مرتب ہوتا ہے اور اسلامی معاشرہ میں دنیابھر کے مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارے ، یکجہتی اور محبت و مودّت کا شعور اُجاگر ہوتا ہے۔ ایثار وقربانی اسلامی تہوار محض انفرادی خوشی منانے کا نام نہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی انجام دہی میں ایسی عبادتیں رکھ دی ہیں،جو ایثار وقربانی کا درس دیتی ہیںاور اسلامی معاشرہ میں اجتماعی خوشی منانے کے جذبہ کو مہمیز بخشتی ہیں، مثلاً عیدالفطر کی نماز سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان چھوٹے بڑے پر صدقہ فطر واجب قرار دیا ہے ،جو اسلامی معاشرہ کے ان غریب طبقات پر خرچ کیا جائے گا جن کے پاس ایسے مواقع پر خوشی کے اسباب اختیار کرنے کی وسعت وگنجائش یا تو ہوتی نہیں یا بہت محدود ہوتی ہے،تاکہ یہ طبقات احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں اور ان مقدس ایام میں اپنے اور اپنے بچوں کے واسطے کھانے پینے اور لباس کا مناسب بندوبست کر سکیں۔
اسی طرح عیدالاضحی میں صاحب استطاعت مسلمانوں پر جانورکی قربانی واجب قرار دی گئی، چونکہ یہ تہوار اللہ تعالیٰ کی جانب سے مہمانی ہوتی ہے ،تاکہ اُس کے بندے اس خوشی میں اعلیٰ ترین غذا ’’گوشت‘‘ کا لطف اٹھائیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے معاشرے کے صاحبِ ثروت طبقات کو جانور کی ’’قربانی‘‘ پیش کرنے کا حکم دیا ۔ یہ قربانی جہاں عمل ابراہیمی کی یادگار، حب مال کے رذیلہ کا حکیمانہ علاج ،دین کے لیے مال وجان کی قربانی پیش کرنے کے جذبے کا حصول اور اللہ تعالیٰ کے دربار سے بےپایاںاجروثواب کمانے کا ذریعہ ہے، وہاں معاشرے کے غریب طبقات کو اپنے ساتھ اس خوشی اور پر لطف غذا میں شریک کرنا ہے۔ اسلامی تہوار کا یہ پہلو مسلمانوں کے دلوں میں ’’ایثارو قربانی‘‘کا لا زوال جذبہ پیدا کرتا ہے اور اُنہیں یہ شعور بخشتا ہے کہ دولت وثروت چند ہاتھوں میں سمیٹ کر رکھنے کی شے نہیں،بلکہ اسلام کامزاج معاشرے کے تمام طبقات میں اس کی مناسب ’’گردش‘‘ پر مبنی ہے، تاکہ کوئی طبقہ اس قدر ذلت وکہتری کا شکار نہ ہو کہ مایوسی کے پاتال میں پڑا رہے اور اُسے زندگی کی جائز خوشیاں بھی نصیب نہ ہوں۔ ذوقِ عبادت کی فراوانی اسلامی تہوار عبادت ہی کی تکمیل کا انعام ہیں اور خود ان تہوارں میں بھی جانی ومالی عبادات کے مختلف مظاہر رکھے گئے ہیں، جو لوگ عام حالات کے اندر ذوقِ عبادت میں کوتاہ سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی ایسے اجتماعی مواقع پر ’’عبادت‘‘میں جوش وخروش دکھاتے ہیں اور اس کا کافی اہتمام کرتے ہیں۔ ان مواقع میں عبادات کا جوش واہتمام معاشرے میں دُعا و عبادت کا ذوق پیدا کرتا ہے۔ یہ اسلامی تہواروں کا ہی امتیاز ہے کہ خوشی و تفریح کے یہ مواقع دینی بیداری اور مذہبی میلان کا باعث بنتے ہیں اورمعاشرے میں مذہبی و دینی رجحانات کو جلا بخشتے ہیں، ورنہ اقوام عالم کے تہواروں نے تو ان کی مذہبی تعلیمات کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلامی تہواروں میں دیگر مذاہب کے تہواروں کی طرح عیش وطرب اور لہو و لعب کی ممانعت ہے، خوشی کی آڑ میں اسراف و تبذیر اور تضییع و تعیش کی ہر گز اجازت نہیں، کیونکہ ان چیزوں کا التزام و رواج مآلاً خوشی کووبال میں بدل دیتا ہے اور معاشرے کے لا چار اور غریب طبقات میں احساسِ کمتری و کہتری کا باعث بنتا ہے۔ اسلام نے خوشی کے ان مواقع میں سادگی و زہد و قناعت کا بنیادی اُصول بر قرار رکھا ہے، نئے لباس یا عمدہ و مہنگے کھانوں کا کوئی التزام نہیں،بس صاف ستھرا لباس پہننا مسنون ہے، اگرچہ پرانا ہو۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ کھانے پینے میں بھی اپنی وسعت و گنجائش کو مدِ نظر رکھا جائے اور ان مادی اشیاء سے نفس کو طراوت بخشنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے استحضار اور ذکر وعبادت سے جی خوش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال اور اظہار کوئی امرِ ممنوع نہیں ،مقصود یہ ہے کہ سادگی و قناعت کاجوہر ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، ضروری راحت و آرام اور تسکین و تفریح کے سامان سے شرعی حدود میں رہ کر مستفید ہوا جائے اور اغیار کی طرح آرام و آسائش اور تفریح و تسکین کے لیے اسراف و تبذیر کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ تہواروں میں سادگی اور قناعت کے یہ مظاہر اسلامی معاشرے میں نجی اور انفرادی خوشی کے مواقع پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں اور یہ شعور اُجاگر کرتے ہیں کہ خوشی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو بے دریغ لٹایا اور ضائع کیا جائے، بلکہ ان کا شکر ہی خوشی کی اصل روح ہے
اللہ تعالی ہمیں عید الفطر کی خوشیاں نصیب کرے اور حتی المقدور دوسروں کو تعاون کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین
از قلم : اجمل حسین السلفی
صاحب گنج جھارکھنڈ
No comments:
Post a Comment