سلف صالحین اور رمضان المبارک میں تلاوت قرآن
رمضان المبارک کا عظیم مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے، رمضان کی فضیلت اس کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کسی سے مخفی نہیں ہے، ہر فرد اپنے اپنے طور پر اس کی رحمتوں برکتوں اور نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کر رہا ہے، جس کو جس قدر توفیق ملتی ہے وہ اس خزانہ ثواب سے جیب وداماں بھرنے میں کامیاب ہوتا ہے جب کہ کچھ ظالم اور بدحظ وبدنصیب ایسے بھی ہیں جو مواقع ملنے اور فرصتیں میسر ہونے کے باوجود بھی خالی ہاتھ رہنے اور عاقبت کے خسران وخذلان کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔اعاذنا اللہ من طریقہم
حصول ثواب کے بہت سارے راستے ہیں جو کتاب و سنت صحیحہ میں بصراحت مذکور ہیں انہیں میں سے ایک تلاوت قرآن بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی، تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے زیادہ دے بیشک وہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے۔(سورہ فاطر آیت 29-30)
حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ لوگوں میں سے کچھ افراد اللہ والے ہوتے ہیں‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا:’’ قرآن والے ،وہی اللہ والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔‘‘(رواہ ابن ماجہ 215 وصححہ الالبانی رحمہ اللّٰہ)
قرآن والے یعنی قرآن پڑھنے والے،دن رات اس کی تلاوت میں غرق رہنے والے،اسے یاد کرنے والے، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اس کا فہم حاصل کرنے والے، اس پر عمل کرنے والے، اور اس کی تبلیغ کرنے والے، یہ سب قرآن والوں میں شامل ہیں۔قرآن کے ساتھ تعلق رکھنے والے اللہ کے خاص بندے اور اس کے مقرب ہیں، یہ بہت بڑا شرف ہے کہ اللہ نے انہیں اپنا قرار دیا ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جسے اس بات کی خوشی ہو کہ اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرے تو وہ مصحف کی تلاوت کرے" (أخرجه البيهقي في شعب الإيمان 2/890 وحسنه الألباني في صحيح الجامع)
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کریم(صحت کے ساتھ) پڑھنے میں ماہر (قیامت کے دن)معزز نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ اور جو شخص اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہے ،اس کے لئے دگنا اجر ہے۔ (رواہ مسلم فی الصحیح 1862)
ابو امامہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کی تلاوت کیا کرو کیونکہ قرآن بروز قیامت قارئ قرآن کا شفارشی بن کر آئے گا"(أخرجه مسلم في الصحيح 804)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس مومن کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے نارنگی کی سی ہے اس کی خوشبوبھی عمدہ ہے اور اس کا ذائقہ بھی خوشگوار ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا کھجور کی سی ہے اس کی خوشبو نہیں ہوتی جبکہ اس کا ذائقہ شیریں ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے نیاز بو (ریحانہ)جیسی ہے اس کی خوشبو عمدہ ہے اور ذائقہ کڑوا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی طرح ہے جس کی خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کا ذائقہ (بھی سخت ) کڑوا ہے۔(متفق علیہ)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی،اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی ، میں نہیں کہتا ' الم 'ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے''۔(رواہ الترمذی 2910 وصححہ الالبانی)
اور چونکہ زمان ومکان کے اعتبار سے عبادات کے ثواب میں تفاوت ہوتا ہے لہذٰا اگر کوئی رمضان کے مہینے میں تلاوت قرآن کا اہتمام کرتا ہے تو یقیناً اسے دوسرے مہینوں کے بنسبت زیادہ اجر و ثواب سے نوازا جائے گا...
قارئین کرام اس تحریر سے میرا مقصد تلاوت قرآن کی فضیلت بیان کرنا نہیں ہے کیونکہ یہ مسلم ومعلوم شئ ہے بلکہ یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ سلف صالحین کس درجہ اہتمام کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے آئیے سلف صالحین اور ائمہ کرام کے واقعات واقوال کی روشنی میں اس چیز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے اندر بھی جذبہ پیدا ہو اور ہم بھی قرآن کو ہر آن اپنے سینوں سے لگائے رکھیں۔
حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: اگر تمہارے دل پاک صاف ہوں تو تم کبھی قرآن کی تلاوت سے سیراب نہیں ہوگے"
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے قرآن مجید حفظ کر لیا، پھر میں نے ایک ہی رات میں اس کی تلاوت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے خطرہ ہے کہ طویل وقت گزرنے پر تم کو اکتاہٹ پیش آجائے گی، اس لیے ایک مہینے میں (پورے) قرآن کی تلاوت کیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے فائدہ اٹھا لینے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر دس دن میں( پورا) قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیں، فرمایا: ’’پھر سات دن میں( پورا) قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے (مزید) فائدہ اٹھانے دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ( میری درخواست قبول کرنے سے ) انکار فرمادیا۔۔۔(سنن ابن ماجہ1346 وصححه شعيب الأرنؤوط في تخريج المسند 6516) بعض روایات میں قرآن ختم کرنے کا کم از کم دورانیہ تین دن بیان کیا گیا ہے۔۔۔یہ حتمی نہیں ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنا ممنوع ہے کیونکہ سلف صالحین کے تعامل سے پتا چلتا ہے کہ وہ تین دن سے کم میں بھی پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے لہٰذا اگر کوئی بلا اکتاہٹ اور تھکان کے، اپنی ذمہ داریوں میں خلل ڈالے بغیر مداومت اور تسلسل کے ساتھ ایک دن میں بھی ایک سے زائد بار قرآن پڑھ سکتا ہے تو پڑھے ان شاء اللّٰہ کوئی حرج نہیں ہے
عبد الرحمن بن عثمان تیمی بیان کرتے ہیں:'' ایک مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ آج رات میں ہی مقام ابراہیم پر نماز ادا کروں گا چنانچہ میں سب سے پہلے وہاں پہنچ گیا، میں نماز پڑھ ہی رہا تھا کہ کسی نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا، میں نے دیکھا تو وہ عثمان رضی اللّٰہ عنہ تھے آپ ان دنوں خلیفہ تھے تو میں ایک جانب ہٹ گیا پھر آپ کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہی رہے یہاں تک کہ ایک ہی رکعت میں پورے قرآن کی تلاوت کر گئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: ائے امیر المومنین آپ نے ایک ہی رکعت پڑھی ہے تو آپ نے فرمایا ہاں یہ میری وتر کی نماز تھی۔( الزهد لابن المبارك1276، السنن الكبرى البيهقي4783 صحیح)
سلیمان بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ عشاء کے بعد کھڑے ہوئے اور ایک ہی رکعت میں پورا قرآن تلاوت کر ڈالے، نا ہی آپ نے اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نا ہی اس کے بعد( الزھد لابن المبارک 1175 صحیح)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"اور جن لوگوں نے ہفتے میں ایک بار قرآن ختم کیا وہ بہت ہیں جیسا کہ یہ (صحابہ میں سے) عثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود، زید بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت جیسے عبد الرحمن بن یزید، علقمہ اور ابراہیم وغیرہم رحمہم اللّٰہ سے مروی ہے" التبيان فی آداب حملۃ القرآن ص 61)
امام ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیا کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء 2/445، تھذیب تاريخ دمشق لابن عساكر3/359)
ابو المہلب بیان کرتے ہیں: تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ ہر سات دن میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔(طبقات ابن سعد 3/500 )
حارث بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سلیم بن عمر ( قاضی مصر، مشہور واعظ وعابد، جنہیں کثرت عبادت کی وجہ سے ناسک کہا جاتا تھا) ہر رات تین مرتبہ قرآن ختم کرتے تھے۔۔۔(سیر اعلام النبلاء 4/132)
ابو خلدہ خالد بن دینار نے کہا میں نے ابو العالیہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: ہم لوگ غلام تھے، ہم میں سے بعض ٹیکس دیا کرتے تھے اور بعض اپنے مالک کی خدمت کیا کرتے تھے، اور ساتھ ساتھ ایک ہی رات میں قرآن ختم کیا کرتے تھے، چنانچہ یہ چیز ہمارے لیے مشقت کا باعث بننے لگی یہاں تک ہم آپس میں شکایت کرنے لگے،پھر ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے ملے، تو ان لوگوں نے ہمیں سکھایا کہ ہم ہر ہفتے میں ایک بار قرآن ختم کریں، اس کے بعد ہم نماز بھی پڑھتے تھے اور سوتے بھی تھے اور ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔(طبقات ابن سعد 7/113، سیر اعلام النبلاء 4/209)
عبدالملک بن ابی سلیمان سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ہر دو رات میں قرآن ختم کرتے تھے۔(الزھد للامام احمد 2370)
امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ منصور بن زاذان ہر دن دو مرتبہ قرآن ختم کرتے اور پوری رات نماز پڑھتے تھے، آپ رحمہ اللہ اپنے عمامہ کو آنسوؤں سے بھگا دیتے تھے" (سير أعلام النبلاء 5/441)
امام ذہبی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:"متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے کہ ابوبکر بن عیاش چالیس سال تک ہر رات دن میں ایک بار قرآن ختم کرتے رہے۔
یحییٰ الیمانی بیان کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی بہن رونے لگی تو انہوں نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟اس جگہ کو دیکھو، تمہارے بھائی نے یہاں اٹھارہ ہزار بار قرآن ختم کیا ہے۔
کرز بن وبرہ نے اللہ سے دعا کی کہ اسے اتنی طاقت و قوت ملے کہ وہ ہر دن رات میں تین بار پورے قرآن کی تلاوت کر سکے، چنانچہ وہ روزانہ قراء کی ایک جماعت کی موجودگی میں تین بار قرآن ختم کرتے تھے۔"(سیر اعلام النبلاء6/85،الإصابة في تمييز الصحابة 5/661.)
سید التابعین سعید بن مسیب ہر دو رات میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے.(تحفة الأحوذي 8/219)
معروف تابعی سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے گھر میں ایک رکعت میں پورے قرآن کی تلاوت کی۔(شذرات الذهب 1/108)
ثابت البنانی کے تعلق سے امام شعبہ بن الحجاج فرماتے ہیں کہ وہ ہر دن ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔۔۔(حلیۃ الاولیاء2/219)
امیر المومنین فی الحدیث یحییٰ بن سعید القطان کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: یحیی بن سعید بیس سال تک ہر رات پورے قرآن کی تلاوت کرتے رہے"(سیر اعلام النبلاء 9/179)
امام مالک کے شاگرد امام عبد الرحمن بن القاسم کے بارے میں اسد بن الفرات کہتے ہیں کہ آپ ہر رات دن میں دو دو بار قرآن ختم کرتے تھے لیکن جب میں ان کے پاس حصول علم کے لیے گیا تو انہوں نے میری وجہ سے ایک بار قرآن ختم کرنا ترک کر دیا علم کی احیاء کے غرض سے"(سیر اعلام النبلاء9/121)
امام ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:"امام ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں کہ امام شافعی ہر رمضان میں ساٹھ بار قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے"(سیر اعلام النبلاء 10/35، مناقب الشافعی للرازی ص127)
امام حمیدی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:"امام شافعی رحمہ اللّٰہ ہر دن ایک بار پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے"(تھذیب اسماء اللغات للنووی1/54)
امام اہل سنت احمد بن حنبل کے بارے میں جعفر بن ابی ہاشم بیان کرتے ہیں:میں نے امام احمد کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک رات پورے قرآن کی تلاوت کی اور اس میں صبر کے مقامات کو گنا تو 90 سے کچھ زائد تھے۔(مناقب الامام احمد ص 358)
امام بخاری کے استاذ امام علی ابن المدینی بشر الحافی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بشر نے اپنی قبر خودی اور اس میں پورے قرآن کی تلاوت کی، ان کا روزانہ کا ورد ثلث القرآن تھا"(سیر اعلام النبلاء 8/360)
علی بن المدینی فرماتے ہیں: امام عبد الرحمن بن مہدی کا روزانہ کا ورد آدھا قرآن تھا.(سیر اعلام النبلاء 9/203)
عطاء بن السائب کے بارے میں امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:"ثقۃ ثقۃ، نیک آدمی ہیں، جنہوں نے ان سے شروع شروع میں سنا ان کی روایت صحیح ہے، وہ ہر رات پوارا قرآن ختم کیا کرتے تھے"
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اے اللہ ہمیں بھی صلف سالحین کی طرح زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کر نے کی توفیق دے۔ آمین
No comments:
Post a Comment