بچوں کی تعلیم میں بیجا سختی ایک قابل مذمت عمل
از قلم: أجمل حسين السلفی
خادم : جمعیۃ الفلاح التعليمية
قارئین کرام: وطن عزیز میں مدارس اور تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہیں اور اس نعمت پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، اللہ کرے ان میں اور اضافہ ہو تاکہ تعلیم کی طرف زیادہ سے زیادہ رغبت پیدا ہو کیونکہ علم ایک ایسا نور ہے جس سے انسان کو انسانیت کا پتہ چلتا ہے یہی وجہ ہے قوم کے اکابرین نے اس جانب لوگوں کو متوجہ کرتے رہے جیسا کہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بچوں سے کہا تھا،، بچو! علم حاصل کرو اگر تمہیں سرداری ملی، تو اور اونچے ہوجاوگے اسی طرح مصعب بن زبیر نے اپنے صاحب زادے سے کہا تھا،، علم حاصل کرو اگر بد صورت ہو تو خوبصورت بن جاوگے ،اگر مفلس ہو تو مالدار ہوجاوگے اتنا ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کا اس بات سے اختلاف نہیں کہ ہر بڑی کامیابی کا بنیادی راز ہے تعلیم ہی ہے
چنانچہ شیکسپیئر کا قول ہے ،،علم ایسا پرواز ہے ،جس سے کام لے کر ہم فضا آسمانی پر اڑسکتے ہیں،،
اور جارج واشنگٹن نے تو ایک موقع پر کہا تھا ک ،، علم ہی تنہا راستہ اور مضبوط بنیاد ہے جس سے عوام وجمہور کی اصلاح کا کام لیا جاسکتا ہے ،،
قارئین کرام : تعلیم اور افادیت تعلیم سے متعلق شرعی نصوص کے ساتھ ساتھ اغیار کے بھی ایسے بےشمار اقوال ہیں جن سے بآسانی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ تعلیم کی اہمیت وافادیت کا کوئی بھی منکر نہیں
ہاں البتہ روس دسویں صدی اور گیارہویں صدی کے نصف اول میں حکمراں طبقہ بہت زیادہ خائف ہوا کہ کہیں عوام دولت علم سے مالا مال نہ ہو جائیں لہذا وہ منصوبہ اور لائحہ عمل تیار کئے کہ عوام میں تعلیم کا وہی تناسب ہونا چاہئے جو کھانے میں نمک کا ہوتا ہے اور آج اسی کی ترقی یافتہ شکل وطن عزیز میں دیکھنے کو ملتی ہے کبھی تو اردو زبان کے ساتھ نا انصافی
تو کبھی نصاب تعلیم پر دخل اندازی کبھی دینی تعلیم گاہوں کو مشکوک ثابت کرنے کی بیجا کوششیں نوبت بایں جا رسید کہ اب تعلیم گاہوں مذہبی نفرت کا ماحول اس طرح تیار کیا جارہا ہے کہ آنے والا وقت وطن سے عزیز انسانیت ناپید ہی نہیں ہوگی بلکہ حیوانیت کا ہر چہار جانب غلبہ ہوگا زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ نفرت کی آگ بھڑکا کر ایک خاص طبقہ کو تعلیم سے دور کردیاجائے تاکہ ان کی حیثیت ایک تنکا سے آگے نہ ہو اس پر حالیہ واقعہ غماز ہے
اس کے لئے 25 اگست 2023 کو اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کے اندر ایک نہاں پبلک اسکول میں سات سال کے معصوم بچے کو فرقہ پرستی کے زیر سے آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی اتنا ہی نہیں بلکہ اس پر قدر سختی کی گئی کہ ملک ہر گوشے میں اس کی چیخ ایک فریاد بن کر اہل قلم کو لکھنے پر اہل صاحب زبان کو بولنے پر مجبور کردیتی ہے شاید اس میڈم کو درس وتدرس سے زیادہ نفرت پھیلانے میں مہارت رہی ہوگی اتنا بھی نہیں معلوم کہ عام بچوں پر سختی کرنا ایک جرم ہے جبکہ مذہب کو سامنے رکھکر سختی کرنا ایک ناقابل معافی جرم اور نہایت ہی سنگین مسئلہ ہے
قارئین کرام : سچ بات تو یہ ہے کہ اگر اس طرح کے واقعات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیئے جائیں تو ملک کی شبیہ عالمی سطح پر بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں
کیونکہ نفرت کی آگ اس سے پہلے بھی تعلیم گاہوں میں پھیلائی کئی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ کئی واقعات بھی پیش آچکے ہیں جو ہر لحاظ سے قابل مذمت ہیں کیونکہ اس سے بچے مہذب نہیں غیر مہذب، مصلح نہیں فسادی بنتے ہیں
قارئین کرام : بالخصوص تعلیم گاہیں نہایت ہی محتاط جگہ ہے اس میں نہ تو نفرت کی ادنی گنجائش اور نہ ہی سختی کی
لہذا اس معاملے حکومت سنجیدگی سے لیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آیئں
No comments:
Post a Comment