قربانى كے احكام و مسائل
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسولہ الكريم وعلى آلہ وصحبہ اجمعين و بعد:
الله تعالى كے فضل و كرم سے قربانى كے چند مختصر مسائل قارئين حضرات كى خدمت ميں پيش كررہا ہوں :-
قربانى كى تعريف:- الله تعالى كا تقرب حاصل كرنے كے لئے بطور عبادت پالتوجانوروں كو ذبح كرنا -
قربانى كا حكم : قربانى كرنا راجح قول كے مطابق سنت مؤكده ہے، جو لوگ طاقت ركھتے ہوئے قربانى نہيں كرتے ہيں ان كا معاملہ بہت مشكل ہے-
قربانى كرنے كى دلائل:-
أولا – قرآن كريم سے :-
1) الله تعالى فرماتا ہے : فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَر (الكوثر) اے نبى محترم!! آپ اپنے رب كے لئے نماز پڑهيں اور قربانى كريں-
2 ) نيز فرمايا:- قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَٰلَمِينَ (الانعام/162) " اے نبى محترم ! آپ فرماديں كہ ميرى نماز ، ميرا ذبح كرنا (قربانى كرنا) ، ميرا جينا اور ميرا مرنا صرف الله رب العالمين كے لئے ہے"-
3) نيز فرمايا:- وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَٰمِ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (الحج/34)
"اور ہر امت كے لئے ہم نے قربانى كے طريقے مقرر فرمائے ہيں تاكہ وه ان چوپاؤں پر الله كا نام ليں جو الله نے انہيں دے ركهے ہيں، تو (ياد ركھو!) تم سب كا حقيقى معبود صرف أيك ہى ہے، تم اسى كے فرماں بردار بن جاؤ ، اور عاجزى كرنے والوں كو خوشخبرى سناديں" -
ثانيا- حديث سے :-
1) عَنْ جُنْدَبٍ رضي الله عنه قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ ذَبَحَ، فَقَالَ: «مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَلْيَذْبَحْ أُخْرَى مَكَانَهَا، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ، فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ» (بخارى/985 ومسلم/1960)
ترجمہ:- جندب رضى الله عنہ كا فرمان ہے كہ بنى كريم صلى الله عليہ وسلم نے عيد قرباں كى نماز دو گانہ ادا كى پهر خطبہ فرمايا پهر قربانى ذبج كى، اس كے بعد فرمايا : " جس نے نماز عيد سے قبل ذبح كيا اس كو چاهئيے كہ دوسرا جانور قربانى كے لئے ذبح كرے اور جس نے اب تك ذبح نہيں كيا ہے اس كو چاهئے كہ باسم الله كركے ذبح كرے"-
2) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا " (احمد/8273 و حاكم في المستدرك/7565 حاكم نے صحيح الاسناد كہا ہے اور امام ذهبى نے ان كى موافقت كى ہے، شيخ شعيب ارناؤوط كى تحقيق ہے : وهو حسن في الشواهد، اور شيخ البانى نے بهى حسن قرار ديا ہے (تخريج مشكلۃ الفقر/102)
ترجمہ:- حضرت ابو ہريره رضى الله عنہ كا كہنا ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا : " جو طاقت ركھتے ہوئے قربانى نہ كرے وه ہمارى عيدگاه كے قريب بھى نہ آئے " -
3) عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الأَضْحَى بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَقَالَ: «مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا، وَنَسَكَ نُسُكَنَا، فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلاَةِ، فَإِنَّهُ قَبْلَ الصَّلاَةِ وَلاَ نُسُكَ لَهُ» (بخارى/955 ومسلم/1961)
ترجمہ:- براء بن عازب رضى الله عنہ كا كہنا ہے كہ نبى صلى الله عليہ وسلم نے عيد قرباں كى نماز كے بعد خطبہ ديا اور فرمايا : " جس نے ہمارے ساتھ نماز ادا كى، اور ہمارى طرح قربانى كى تو اس كى قربانى ہوگئى اور جس نے نماز سے قبل قربانى كى اس كى قربانى نہيں ہوئى"-
ان سارى دلائل سے معلوم ہوا كہ قربانى كرنا چاہئے اور اس عبادت كى ادائيگى ميں سستى و بخالت سے كام نہيں لينا چاہئے، ليكن بعض علماء كرام نے انہيں دلائل كو مد نظر ركھتے ہوئے صاحب استظاعت پر قربانى كرنا واجب قرار ديا ہے- (الله أعلم)
كن جانوروں كى قربانى كى جائے:-
مندرجہ ذيل جانوروں كى قربانى كى جانى چاہئے: اونٹ اور اونٹنى، گائے اور بيل، بكرا اور بكرى، اور بكرا وبكرى كى قسم ميں دنبہ، بهيڑ داخل ہيں- (سوره انعام آيت نمبر 143 و 144 كا مطالعہ كيا جاسكتا ہے)
يہى مندرجہ بالا جانور نصوص شرعيہ سے واضح طور پر ثابت ہيں، اور جمعہ ميں حاضرى كا جو ترتيب وار اجر الله كے نبى صلى الله عليہ وسلم نے بيان كيا ہے وه مندرجہ بالا جانوروں كے بارے ميں ہى ہے، ملا حظہ فرمائيں حديث:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الجُمُعَةِ غُسْلَ الجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ...» (بخارى/881 ومسلم/850)
ترجمہ:- حضرت أبو ہريره رضى الله عنہ سے مروى ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرما يا : "جس نے جمعہ كے دن غسل جنابت كى طرح غسل كيا اور دن كے شروع ميں مسجد گيا تو گويا كہ اس نے أيك اونٹ كى قربانى كى (يا صدقہ كيا) اور جو اس كے بعد گيا تو گويا كہ اس نے أيك گائے كى قربانى كى، اور جو تيسرى گھڑى ميں گيا تو گويا كہ اس نے سينگ والے مينڈها كى قربانى كى" -
لہذا قربانى كرنے ميں انہيں جانوروں پر اكتفاء كرنا چاہئے، گر چہ بعض علماء نے گائے كى قسم ميں سے بھينس كو مان كر بهينس يا بهينسا كى قربانى جائز قرار ديا ہے، ليكن بہتر انہيں جانوروں كى قربانى ہے جو دلائل سے ثابت ہيں-(الله اعلم)
قربانى كا وقت:-
قربانى كا وقت عيد قرباں كى نماز اور خطبہ كے بعد سے تيره ذي الحجہ كے سورج غروب ہونے تك ہے-11-12- اور 13 ذي الحجہ كوأيام تشريق كہا جاتا ہے جن دنوں حاجى حضرات منى ميں قيام پذير ہوتے ہيں- انہيں تين دنوں كو أيام منى يا ليالى منى بهى كہا جاتا ہے- أيام منى يا أيام تشريق تين دن ہيں ، تو گويا كہ چار دن قربانى كرسكتے ہيں، عيد كے دن 10 ذى الحجہ كو عيد كى نماز اور خطبہ كے بعد، اور 11-12 اور 13 ذي الحجہ كى شام تك-
الله تعالى فرماتا ہے : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَٰتٍ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَىٰ (البقرة/203)
ترجمہ:-" گنتى كے چند دنوں ميں الله تعالى كا ذكر كرو، تو جو شخص دو دن ميں جلد بازى كرے (11-12 كو) تو كوئى گنا ه كى بات نہيں ہے، اور جو تأخير كرے (يعنى 13 كو) تو اس ميں بهى كوئى گناه كى بات نہيں ہے ليكن تأخير تقوى والے كرتے ہيں"-
نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا : «أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ»(مسلم/1141) پورے أيام تشريق كھانے پينے كے دن ہيں-
پورے أيام تشريق ميں قربانى ذبح كرسكتے ہيں ، نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: " كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ " (احمد/ 16752 و الدارقطنى/4758 و البيهقي في الصغرى/ 1832 وابن حبان في صحيحہ/3854 متعدد سندوں كو يكجا كركے شيخ البانى نے اس حديث كى سند كو صحيح كہا ہے ، الصحيحۃ/2464) يعنى سارے أيام تشريق ذبح كے أيام ہيں-
چاند نظر آنے كے بعد قربانى كا اراده ركھنے والے كو كيا كيا نہيں كرنا چاہئے:-
عن أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ» (مسلم/1977)
ترجمہ:- حضرت ام سلمہ رضى الله عنہا فرماتى ہيں كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ :"جو شخص قربانى كرنا چاہتا ہے اور ذي الحجہ كا چاند نكل جائے تو وه اپنا بال اور ناخن نہ كاٹے يہاں تك كہ قربانى كرلے "-
اس لئے مسلم كو چاہئے كہ چاند نكلنے سے قبل ہى اپنے بال اور ناخن وغيره كى صفائى كرلے تاكہ قربانى كرنے سے قبل ان چيزوں كو كاٹنے كى ضرورت نہ پڑے- ليكن أيك بات ياد ركھيں يہ حكم صرف اس شخص كے لئے ہے جو قربانى كرنا چاہتا ہے، يعنى اگر كوئى قربانى كے لئے جانور خريدا اور وه چاہتا ہے كہ اپنى اور اپنے گهر والوں كى طرف سے قربانى كرے تو بال اور ناخن نہ كاٹنے كا حكم صرف اسى شخص پر لاگو ہوگا نہ کہ اس كے سارے گهر والوں پر -
قربانى كى شرطيں:-
1- قربانى كے جانور كا مطلوبہ عمر تك پہونچنا ضرورى ہے يعنى بكرا و بكرى كا أيك سال كا ہونا، گائے و بيل كا دو سال كا ہونا اور اونٹ و اونٹنى كا پانچ سال كا ہونا ضرورى ہے- ساتھ ميں دانتا بهى ہونا چاہئے، الله كے نبى صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا : «لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً» (مسلم/1963) يعنى صرف مسنہ ہى ذبح كيا كرو- مسنہ كہتے ہيں :- وه جانور جس كے دودھ كے دانت ٹوٹ گئے ہوں اور يہ عموماً اونٹ ميں اس وقت ہوتا ہے جب وه پانچ سال پورا كركے چھٹے سال ميں داخل ہوجائے، اور گائے و بيل ميں اس وقت ہوتا ہے جب وه دو سال پورا كركے تيسرے سال ميں داخل ہوجائے، اور بكرى و بھيڑ ميں اس وقت ہوتا ہے جب وه أيك سال پورا كركے دوسرے سال ميں داخل ہوجائے-
2- قربانى كے جانوروں كا عيوب سے پاك ہونا، چار ايسے بڑے عيوب ہيں جن سے قربانى كے جانور كا پاك ہونا نہايت ضرورى ہے اگر ان چاروں ميں سے أيك بهى عيب پايا گيا تو قربانى نہيں ہوگى، حديث ملاحظہ فرمائيں:- "أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الضَّحَايَا الْعَوْرَاءُ، الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تُنْقِي" (احمد/18667 عن البراء بن عازب رضى الله عنہ، شخ البانى نے صحيح كہا ہے ارواء الغليل/1148)
ترجمہ:- " چار قسم كے عيوب قربانى ميں پائے جائیں گے تو قربانی جائز نہيں ہے:- (1) ايسا كانا جانور جس كا كانا پن ظاہر ہو (2) ايسا بيمار جانور جس كى بيمارى ظاہر ہو (3) ايسا لنگڑا جانور جس كا لنگڑا پن ظاہر ہو (4) ايسا كمزور اور دبلا جانور جس ميں گودا ہى نہ ہو" -
اس حديث سے معلوم ہوا كہ يہ سارے عيوب اگر ظاہر نہ ہوں اور بہت كم ہو تو اس كى قربانى ہو جائے گى- اور يہ بات بهى معلوم ہوئى كہ اگر مذكوره عيوب سے زياده ہو تو پهر ايسے جانور كى قربانى بدرجہ أولى جائز نہيں ہوگى، جيسے اندها جانور، ٹانگ كٹا جانور وغيره-
اسى طرح عيوب ميں سے ہے:- كان كا زياده حصہ يا آدها كٹا ہونا، دم آدهى كٹى ہوئى يا اس سے زياده ، سينگ آدها ٹوٹا ہوا يا اس سے زياده تو اس قسم كے جانور كى قربانى كرنے سے پرہيز كرنا چاہئے- ليكن اگر كان ہلكا كٹا ہو يا دم تهوڑى سى كٹى ہو، يا سينگ آدهے سے كم ٹوٹا ہو تو ايسے جانور كى قربانى جائز ہے ليكن بہتر ہے كہ ہر قسم كے عيب سے مبرا جانور كى قربانى كيا جائے-
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ القَرْنِ وَالأُذُنِ» قَالَ قَتَادَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، فَقَالَ:العَضْبُ،مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ (ترمذى/1504 وقال: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، والنسائي/4377 امام حاكم نے اس كو صحيح كہا ہے اور ذہبى نے ان كى موافقت كى ہے نيز شيخ شعيب ارناؤوط نے حسن كہا ہے، ليكن شيخ البانى نے ضعيف كہا ہے)
ترجمہ:- حضرت على رضي الله عنہ سے روايت ہے كہ رسو ل الله صلى الله عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے كہ سينگ كٹا اور كان كٹا جانور كى قربانى كى جائے- حضرت سعيد بن مسيب تابعى كا كہنا ہے كہ العضب كا معنى ہے آدها يا آدها سے زياده-
لہذا ہميں چاہئے كہ قربانى كا جانور خريدتے وقت ان سارے عيوب كى چانچ پڑتال كرليں تاكہ عيب دار جانور نہ خريدا جائے جيساكہ حضرت على رضى الله عنہ كا كہنا ہے:
عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ "
(ابن ماجہ/4143 و دارمى /1994 اور شيخ البانى نے حسن صحيح كہا ہے )
*ترجمہ:-* حضرت على رضى الله عنہ سے مروى ہے وه كہتے ہيں كہ ہميں رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے حكم ديا كہ جانور كى آنكھ اور كان كا اچھى طرح سے معائينہ كرليں-
قربانى كرنے كى دعا :-
چاقو كو بہترين طريقہ سے تيز كرلے اور جانور كو قبلہ رخ لٹا كر يعنى جانور كا سر دكهن كى طرف قبلہ رخ ہو اور اپنا داياں پاؤں جانور كے كندها پر ركھے اور دائيں ہاتھ ميں چاقو ليكر يہ دعا پڑھ كر ذبح كرے:-
1- بِسْمِ اللهِ وَ اللهُ أكْبَرُ، اللّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَ لَكَ، اللّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي وَ مِنْ أهْلِ بَيْتِى اور اگر دوسرے كا جانور ذبح كررہا ہو تو اللهم تقبل من فلان اور فلان كى جگہ پر اس آدمى كا نام لينا ہے- دلائل:-
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: «ضَحَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ، وَسَمَّى وَكَبَّرَ، وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا»*(بخاري/5565 ومسلم/1966)
ترجمہ:- حضرت انس رضى الله عنہ سے روايت ہے كہ نبى كريم صلى الله عليہ وسلم نے دو سفيد سينگ والے مينڈھے كى قربانى كى اور ان دونوں كو اپنے دست مبارك سے ذبح كيا، اور بسم الله و الله اكبر كہا، اور اپنا پاؤں جانور كى گردن كے اوپر يعنى كندهے كے اوپر ركها"-
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَضْحَى بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ مِنْ مِنْبَرِهِ وأُتِيَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَقَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي، وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي» (أبو داؤد/2810 و الترمذى/1521 اور شيخ البانى نے صحيح كہا ہے)
ترجمہ:- حضرت جابر بن عبد الله رضى الله عنهما فرماتے ہيں كہ ميں رسول الله صلى الله عليہ وسلم كے ساتھ عيد قرباں ميں شريك ہوا، جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو منبر پر سے اترے اور اپنے دست مبارك سے بهيڑ كو ذبح كيا اور يہ دعا پڑهى : «بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي، وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي» يعنى بسم الله الله اكبر، اے الله يہ ميرى جانب سے ہے اور ميرى امت كے ان سارے لوگوں كى طرف سے ہے جنہوں نے قربانى نہيں كى ہے "-
2- «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ» (أبو داؤد/2795 و ابن ماجہ 3121 شيخ البانى نے ضعيف كہا ہے، اور شيخ شعيب ارناؤوط نے حسن كہا ہے) ايك دعا يہ بهى وارد ہے اگر حديث قابل حجت ہو تب-( الله اعلم)
مسئلہ:- قربانى كے لئے جانور كى تعيين كے بعد اگر كوئى عيب ظاہر ہوگيا تو اس كا كيا حكم ہے ؟
جواب: اگر جانور ميں وه عيب انسان كى لا پرواہى اور بے توجہى سے ظاہر ہوا ہو تو اس جانور كى قربانى درست نہيں ہوگى، ہاں البتہ اگر خود سے عيب دار ہوگيا تو اس كى قربانى ہوجائے گى-
عَنْ أَبِي حَصِينٍ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَأَى هَدايا له فِيهَا نَاقَةٌ عَوْرَاءُ، فَقَالَ:" إِنْ كَانَ أَصَابَهَا بَعْدَ مَا اشْتَرَيْتُمُوهَا فَأَمْضُوهَا، وَإِنْ كَانَ أَصَابَهَا قَبْلَ أَنْ تَشْتَرُوهَا فَأَبْدِلُوهَا " (البيهقي في الكبرى/10247 وفي الصغرى/1800 امام نووي نے اس اثر كى سند كو صحيح كہا ہے المجموع شرح المهذب 8/363))
ترجمہ:- حضرت عبد الله بن الزبير رضى الله عنہما نےاپنے قربانى كے جانوروں ميں أيك كانى اونٹنى كو ديكها تو فرمايا : " اگر يہ تم لوگوں كے خريدنے كے بعد ظاہر ہوا ہے تو كوئى مشكل نہيں اسے ذبح كردو ، اور اگر خريدنے سے قبل ہى يہ موجود تها تو اس كو بدل دو " شيخ ابن عثيمين رحمہ الله نے اس موضوع پر مفصل گفتگو كى ہے اپنى كتاب " احكام الاضحيہ" ميں-
لہذا ہميں چاہئے كہ قربانى كے جانوروں كى اچهى طرح ريكھ ديكھ كريں اور بہترين طريقے سے اس كى پرورش و پرداخت كريں-
قربانى كے گوشت كو تين حصوں ميں تقسم كرنا:-
كچھ اصحاب المذاہب نے قربانى كے گوشت كو تين حصوں ميں تقسيم كرنے كو مستحب كہا ہے اور وه مندرجہ ذيل نصوص سے استدلال كرتے ہيں : فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (الحج/28) يعنى قربانى ميں سے خود بهى كهاؤ اور بھوكے فقير كو بهى كهلاؤ- نيز فرمايا :- فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (الحج/36) يعنى قربانى كا گوشت خود بهى كھاؤ اور مانگنے والےا ور نہ مانگنے والے دونوں قسم كے مسكينوں كو كھلاؤ-
شروع اسلام ميں غربت كى وجہ سے الله كے نبى صلى الله عليہ وسلم نے تين دنوں سے زياده قربانى كا گوشت ركھنے سے منع فرمايا تها، ليكن جب الله تعالى نے فراوانى دى تو فرما يا :- «إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ، فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا» (مسلم/1971) " غريبوں كى بھيڑ كى وجہ سے ميں نے تم لوگوں كو منع كيا تها، ليكن اب كهاؤ، ذخيره اندوزى بهى كرو اور صدقہ بهى كرو"-
اس طرح كى تقسيم بعض صحابہ كرام رضى الله عنهم سے بهى مروى ہے-
ليكن ياد رہے !! كہ يہ تقسيم كوئى واجب نہيں ہے، اور خاص كر اگر جانور چهوٹا ہو اور اس تقسيم سے گهر والوں كے لئے بہت كم گوشت باقى ره جاتا ہو تو ايسى صورت ميں گهر كے افراد گوشت كے زياده حقدار ہيں-
كچھ گاؤں ميں اس موضوع كو ليكر جهگڑا بھی ہوجايا كرتا ہے جو جہالت پر مبنى ہے-
اگر گاؤں والے دو -دو كيلو گوشت أيك جگہ جمع كرليں اور جن لوگوں كے يہاں قربانى نہيں ہوئى ہے ، اور محتاج لوگوں ميں جمع شده گوشت تقسيم كرديا جائے تو اور بهى اچها ہوگا-
تنبيہ:- بہت سارى بستيوں ميں قربانى كرنے والے أيك حصہ كو چھوٹى چھوٹى بوٹى بناكر ہر گھر ميں تهوڑا تھوڑا ديتے ہيں جس كو تنكہ كہا جاتا ہے، اور سمجهتے ہيں كہ اس سے صدقہ صاحب حق كو مل گيا، ميرے محترم بهائيو! ايسا كرنا أولاً كسى دليل سے ثابت نہيں ہے اور ثانياً اس طرح سے مالدار و غير مالدار سبهوں كو ديا جاتا ہےاور صدقہ كهانا مالداروں كے لئے جائز نہيں ہے، لہذ ا اس سے اجتناب كرنا ضرورى ہے-
مسئلہ:- كيا ميت كى جانب سے قربانى كرسكتے ہيں :؟
قارئين كرام!! در اصل قربانى زنده كى طرف سے ہے، حديث كى كسى بهى كتاب ميں وارد نہيں ہے كہ نبى صلى الله عليہ وسلم نے اپنى زندگى ميں كسى ميت كى طرف سے قربانى كى ہو، جبكہ آپ كى زندگى ميں ہى آپ كى محبوب بيوى حضرت خديجہ كا انتقال ہو گيا تھا، اسى طرح سے بعض لڑكيوں كا بهى انتقال ہوگيا تها، صحابہ كرام ميں سے كئى أيك انتقال كرچكے تھے ليكن كہيں وارد نہيں ہے كہ نبي صلى الله عليہ وسلم نے ميت كى جانب سے قربانى كى ہو-
ليكن اہل علم نے اس ضمن ميں كچھ تفصيل بيان كى ہے جو مندرجہ ذيل ہے:-
1- ميت نے وصيت كى كہ اس كى جانب سے قربانى كى جائے اور اس كے لئے مال بهى چهوڑا تو اس حال ميں اس كى وصيت كى تنفيذ كرتے ہوئے اس كى جانب سے قربانى كى جائے گى –
2- ميت كى جانب سےمستقل قربانى كى جائے، اس كا ثبوت شريعت ميں كہيں بهى نہيں ہے اگر كوئى كر رہا ہے تو وه صدقہ كے معنى ميں ہوگا اور سارے گوشت كو صدقہ كرنا ہوگا-
3- ميت كو زندوں كے ساتھ شامل كركے قربانى كى جائے جيسا كہ قربانى كرتے وقت كہے اللهم هذا مني و من اهل بيتي اے الله يہ ميرى اور ميرے گهر والوں كى طرف سے ہے، تو گهر والوں ميں زنده و مرده سارے لوگ شامل ہوجائيں گے اور سبہوں كو اس كا اجر ملے گا-
دليل:- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ«إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ، اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ، سَمِينَيْنِ، أَقْرَنَيْنِ، أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ، فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ، لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ، بِالتَّوْحِيدِ،وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (ابن ماجہ/3122 شيخ البانى نے صحيح كہا ہے)
ترجمہ:- حضرت أبو ہريره رضى الله عنہ سے مروى ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب قربانى كرنے كا اراده كرتے تو دو بڑے، موٹے، اور سينگ والے سفيد (يا چتكبرے) خصى خريدتے؛ ان ميں سے أيك اپنى امت كے ان لوگوں كى طرف سے كرتے جو الله كى وحدانيت اور رسول الله كى رسالت كى گواہى دى ہو- اور دوسرا اپنى طرف سے اور اپنے اہل عيال كى طرف سے كرتے"-
اس حديث سے معلوم ہوا كہ جب بهى قربانى كى جائے تو گارجين اپنى اور اپنے گهر والوں كى جانب سے كرے تاكہ سب كو برابر ثواب مل سكے ، اور گهر والوں ميں ميت بهى داخل ہوجاتے ہيں- ليكن اگر گهر ميں سے كسى أيك فرد كى جانب سے كى جائے گى تو صرف ثواب اسى فرد كو ملے گا اور گهر كے دوسرے افراد كو نہيں ملے گا- اور سرپرست كے اپنى طرف سے قربانى كرنے سے اور گهر والوں كو شامل كرلينے سے سب زنده و مرده كو برابر ثواب الله تعالى عطا فرمائے گا تو پهر الله كى عطا كو أيك ہى شخص ميں محصور كرنا مناسب نہيں ہے- (الله أعلم )
متفرق مسائل :-
• قربانى كے جانور كا چمڑا فروخت كرنا جائز نہيں ہے ، اس كو صدقہ كرديں يا فروخت كركے اس كى قيمت صدقہ كرديں-
• قربانى كا گوشت بيچنا قطعا جائز نہيں ہے، اور نہ بطور مزدورى قصائى كو قربانى كا گوشت دينا درست ہے، ہا ں بطور تحفہ ديا جاسكتا ہے- اور مزدورى الگ سے دى جائے-
• غير مسلم كو بهى قربانى كا گوشت بطور ہديہ يا بطور صدقہ ديا جا سكتا ہے- اس ميں كوئى حرج نہيں ہے-
• بعض جگہوں پہ ذبح كرنے والے كو جانور كا سر ديا جاتا ہے ، اس كى كوئى حقيقت نہيں ہے بلكہ يہ ايك رسم ہے اور اگر بغور ديكها جائے تو اس ميں ہندؤوں كى مشابہت پائى جاتى ہے، كہ وه لوگ بليدان كے جانور كاٹنے والے كو سر دے ديا كرتے ہيں-
• بعض لوگ قربانى سے پہلے جانور كو نہلا ديتے ہيں يا جس جگہ ذبح كرنا ہے اس جگہ كو مٹى سے ليپ پوت ديتے ہيں يہ بهى أيك رسم ہے اس سے پرہیز ضرورى ہے-
• قربانى خود ذبح كريں تو بہتر ہے ، عورتيں بهى قربانى كرسكتى ہيں اگر ذبح كرنے كا طريقہ معلوم ہو-
• ذبح كرتے وقت سر پر ٹوپى يا رومال ركهنا ضرورى نہيں ہے، بغير سر ڈهانپے بهى ذبح كيا جا سكتا ہے-
• والله اعلم بالصواب، وصلى الله تعالى على النبي وسلم
No comments:
Post a Comment