عید الاضحی انسانی خدمت کا بہترین پیغام
قارئین کرام: اس وقت ہم مسلمان سیاسی اعتبار سے ایک بدترین دور سے گزر رہے ہیں لیکن دینی اعتبار سے ہم وآپ دنیاوی زندگی کے بہترین ایام سے گزر رہے ہیں ،،لا تجلس صامتا بلکہ ذکر واذکار تسبیح تہلیل میں مصروف ہو جائیں زندگی کا کیا بھروسہ پھر یہ ایام ملے نہ ملے
قارئین کرام: دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دنوں بعد عید الاضحٰی کی پر مسرت گھڑی آجائے گی ان شاء اللہ
فی الحال ہم و آپ ایک بڑی تیاری میں مصروف ہیں اسی مناسبت سے چند سطور حوالہ قرطاس کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ پڑھنے کے بعد دوسروں تک ضرور شئر کریں گےاللہ تعالٰی آپ کو بہتر بدلہ دے
قارئین کرام: آج مسلمانوں میں دینی فہم اور شعور کی کمی اس قدر ہے کہ ہم اصل مقصد سے ہٹ کر کوئی کام انجام دینے کے عادی ہو چکے ہیں جیسا کہ قربانی ہی کو لے لیجئے مقصد قربانی کیا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم اور چل دئے مارکیٹ بے عیب جانور خریدنے جبکہ بے عیب جانور کی قربانی کا ایک ہی مقصد ہے کہ پہلے خودبےعیب بن جائیں جیسے مکر وفریب ،چغلی غیبت ، رشوت اور حرام خوری سے پھر بے عیب جانور تلاش کریں اسی طرح یوم النحر کو جانور کے گلے میں چھری پھیرتے ہیں جبکہ جانور کی قربانی سے پہلے اپنی ضد ،انا ،حسد ،منافقت اور بد گمانی پر چھری چلاتے نیز دل کی غلاظت صاف کرتے تو کوئی مظلوم یا مجبور دیکھائی نہیں دیتا یہی وجہ ہے آج سماج خستہ حالی کا شکار ہے ہر طرف آہ وبکا کی آواز سنی جارہی ہے۔
قارئین کرام: اسی طرح اسلامی تعلیمات کے مطابق قربانی کرنے کے بعد ،، لن ينال الله لحومها ولا دمآؤها ولكن يناله التقوي منكم،،اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے صرف تقوی پہنچتا ہے غور وفکر کرتے اور اپنی اصلاح کو زندگی کے تمام امور میں ترجیح دیتے تو آج سماج نہایت ہی ترقی پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک مثالی سماج کا مقام حاصل کر لیتا
معلوم ہوا کہ قربانی کا بنیادی مقصد تقوی وپرہیزگاری ہے یعنی ہمیں گناہوں سے دور رہنا چاہئے اسی طرح سماج میں بالخصوص کمزور طبقہ ،معذروں اور محتاجوں کا خیال رکھنا چاہئے اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے،، فكلوا منها واطعموا البآءس الفقير،، ترجمہ: آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاو،،
قارئین کرام: ہماری دونوں عیدوں کا خدا کی نعمتوں سے گہرا تعلق ہے۔ رمضان سے تقویٰ، صبر، ہمدردی، ڈسپلن، ضبط نفس پیدا ہوتا ہے اور عید قرباں اپنے آپ کو منانے، اپنے دین پر مکمل عمل کرنے، اور قربانیاں دینے کے لیے تیار کرتی ہے۔
ہر سال ہمارے درمیان عید قرباں کے تاریخی ایام آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے آج بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ اس میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں کہ اس دن کو قیامت تک کے لیے یادگار قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی وہ ایثار و قربانی اور حصولِ رضائے الٰہی کا وہ جذبہ ہی تھا جس کی بنیاد پر ابراہیم ؑ نے گھر، وطن، دولت تو چھوڑی ہی بادشاہ وقت سے بھی بغاوت کی، پھر اللہ کی خاطر بیوی اور ننھے سے دودھ پیتے بچے کو بے آب وگیاہ میدان میں بے سہارا چھوڑ آئے اور خود آگ کے دہکتے الاؤ میں ڈالے گئے، یہاں تک کہ اپنی جان ہی نہیں لختِ جگر کی قربانی کے آخری حکم کی بھی تعمیل کی۔اخلاص و سچائی اور ایثار و قربانی کا یہ ایسا بے نظیر واقعہ ہے جس کی مثال آج تک کوئی قوم پیش نہیں کرسکی، اسی لیے اللہ نے اس بلند ترین عمل کو قیامت تک کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت دے دی، تاکہ عید قرباں کی تاریخی حیثیت پر نگاہ رکھتے ہوئے بندۂ مومن اپنے اندر بھی وہی جذبہ پیدا کرے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وہ سب کچھ قربان کردے جو میسر ہو۔
لیکن افسوس صد افسوس! کہ لوگوں نے اسے بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا اور نہ اس کے تقاضے کو سمجھا۔
قارئین کرام: حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم اللہ کے حکم پر چلیں گے، اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے اور نہ کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں گے۔
ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کردیں گے، تاکہ اختلاف، انتشار بغض و حسد، کبر و غرور، عناد و دشمنی، مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ عظمت و بلندی کا جو معیار قرآن مجید نے بتایا ہے، اسے ہم اپنی زندگی میں سجا بسا لیں۔ ذات برادری، رنگ و نسل اور دولت و غربت کے سارے امتیازات کو مٹا کر اخوت و مساوات، پیار و محبت اور ایک خدا کی عبادت و بندگی کی فضا قائم کریں۔
اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سےخالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے، تو وہ ایک جاندار کا خون بہاتاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ہوجو براہیم سا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
اللہ تعالٰی ہمیں قربانی کے اھداف ومقاصد سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
No comments:
Post a Comment