صدقہ فطر کی ادائیگی کب اور کیسے؟
قارئین کرام: ماہ رمضان میں مدارس کے اساتذہ زیادہ تر سفر میں ہوتے ہیں میں بھی کئی جگہوں کی زیارت کر چکا ہوں دوران سفر یہ دیکھنے کو ملا کہ کچھ لوگ عشرہ اولی ہی میں صدقہ فطر ادا کر دیتے ہیں جبکہ احادیث کی روشنی میں خوب زیادہ تو دو دن یا تین دن پہلے ادا کر سکتے ہیں یاپھر عیدگاہ جانے سے پہلے
اسی طرح اس ماہ میں بالخصوص شوشل میڈیا میں کچھ لوگ اس بات کو لیکر کافی اُلجھے رہتے ہیں کہ صدقہ فطر میں غلہ دیا جائے یا قیمت دینا ہی کافی ہے
اس تعلق سے کچھ لوگ بڑی سختی کے ساتھ فتوی جاری کر دیتے ہیں کہ غلہ کی جگہ قیمت دینے سے فطرہ ادا ہی نہیں ہوگا اتنا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ ہنڈ بل چھاپ کر تقسیم بھی کر رہے ہیں حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ مناظرہ کرنے کے لئے بھی تیار ہیں
جبکہ سچ بات تو یہ ہے کہ اس میں اتنی تنگی نہیں ہے جتنا کہ لوگوں نے سمجھ لیا ہے اور زبردستی اپنی بات منانے کے لئے نہ جانے کتنے القاب اور عہدوں کا بیجا استعمال کر رہے۔ ہیں !!
واضح رہے کہ یہ کوئی نیا اختلاف نہیں ہے بلکہ بہت قدیم ہے اور اس اختلاف سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ صدقہ فطر میں غلہ دینا افضل واولی ہے اور قیمت دینا جائز ہے لیکن افسوس صد افسوس: کہ تطبیق کی اس صورت کو کچھ لوگ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں ایک عجب خلفشار ہے جو کہ بذات خود شریعت کے منافی عمل ہے ولا تنفروا
قارئین کرام : جب آپ اس تعلق سے دلائل کو دیکھیں گے وہ دونوں طرح کے ہیں لہذا جو عدم جواز کے قائلین ہیں وہ ضرور پڑھیں
اور یہ بھی خیال رہے کہ انہیں بھی معلوم تھا کہ صدقہ فطر عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے باوجود اس کے آن ائمہ کرام نے قیمت کو جائز قرار دیا ہے
1-چنانچہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری اور امام ابن تیمیہ رحمھم اللہ کے نزدیک صدقہ فطر اجناس کے بجائے قیمت سے ادا کرنا بھی جائز ہے۔ ان لوگوں کے دلائل :
صدقہ فطر کا اصل مقصد فقیر کو عید الفطر کے دن کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بے نیاز کرنا ہے،جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ "أغنوهم عن المسألة في هذا اليوم"
یعنی اس دن میں ان فقراء کو سوال کرنے سے مستغنی کردو۔
2۔ اسی طرح تابعین کے آثار سے بھی غذائی اجناس کے بجائے قیمت سے صدقہ فطر ادا کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
١۔ روى ابن أبي شيبة عن عون قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز يقرأ إلى عدي بالبصرة - وعدي هو الوالي -: يؤخذ من أهل الديوان من أعطياتهم من كل إنسان نصف درهم
(مصنف ابن أبي شيبة، ج:2، ص: 398، ط:مكتبة الرشد، رياض )
ترجمہ: خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بصرہ میں عدی کی طرف (خط) لکھ کر بھیجا کہ ہر شخص سے آدھا درہم لیا جائے۔
٢۔ وعن الحسن قال: لا بأس أن تعطي الدراهم في صدقة الفطر.
(مصنف ابن أبي شيبة، ج:2، ص: 398، ط: مكتبة الرشد، رياض)
ترجمہ:حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر میں (غذائی اجناس کے بجائے ) دراہم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٣۔ وعن أبي إسحاق قال: أدركتهم وهم يؤدون في صدقة رمضان الدراهم بقيمة الطعام.
(مصنف ابن أبي شيبة، ج:2، ص: 398، ط: مكتبة الرشد، رياض)
ترجمہ:ابواسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے تابعین کو دیکھا کہ وہ صدقہ فطر میں غذائی اجناس کی قیمت ادا کرتے تھے۔ان آثار سے یہ پتہ چلا کہ صدقہ فطر میں نقدی (روپے وغیرہ) دینا جائز ہے۔
3۔ اگر بنظر انصاف دیکھا جائے اور غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک اور اس کے بعد صحابہ و تابعین کے ادوار میں غذائی اجناس ہی بطور قیمت استعمال ہوتی تھیں، وہ لوگ غذائی اجناس ہی کا آپس میں تبادلہ کرتے تھے۔کبھی غلہ و اناج کا آپس میں تبادلہ ہوتا، کبھی اناج کا سونے، چاندی کے ساتھ تبادلہ ہوتا تھا اور اس وقت جو بھی شخص کوئی بھی جنس لے کر بازار جاتا، اسے اس جنس کے صحیح دام ملتے اور اس کے عوض مناسب مقدار میں چیز مل جاتی تھی،
بہر حال اس مسئلہ کو بڑا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ اس قدر نہیں ہے جس طرح کچھ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں اسی پر بس نہیں بلکہ دوسروں کو عمل کے لئے مجبور کیا كرتے ہيں العياذ بالله
اللہ تعالی ہمیں علم وعمل پر قائم ودائم رکھے آمین
ابو افضل اجمل حسین السلفی
خادم : جمعية الفلاح التعليمية بڑا سونا کوڑ
صاحب گنج جھارکھنڈ
No comments:
Post a Comment