ماہ رمضان اور خدمت خلق
از قلم : اجمل حسین السلفی صاحب گنج جھارکھنڈ
قارئین کرام : مذہب اسلام میں خدمت خلق کا مقام و مرتبہ نہایت ہی غیر معمولی ہے بالخصوص ماہ رمضان میں اس کی اہمیت اور دو چند ہو جاتی ہےکیونکہ حضرت عائشہ بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ماہ مبارک میں جو کچھ مال ہاتھ آتا آپ اسےمحتاجوں میں تقسیم کر دیتے حتی کہ آپ کی سخاوت وفیاضی کو تیز آندھی سے تشبیہ دی گئی جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں
،،كان النبي صلي الله أجود ألناس بالخير، وكان أجود ما يكون في رمضان ،حين يلقاه جبریل، وكان جبريل- عليه السلام- يلقاه كل ليلة في رمضان حتي ينسلخ، يعرض عليه النبي صلي الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل- عليه السلام كان أجود بالخير من الريح المرسلة ( بخاری ) ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت وفیاضی اس وقت اور بڑھ جاتی تھی جب جبريل علیہ السلام آپ سے رمضان میں ملتے،جبريل علیہ السلام آپ سے رمضان المبارک کی ہر رات میں ملتے یہاں تک رمضان گزر جاتا
الغرض: سال کے بقیہ مہینوں سے زیادہ آپ اس عظیم مہینہ میں سخاوت وفیاضی اور مخلوق خدا کی خدمات انجام دیتے
قارئین کرام : لیکن افسوس صد افسوس! آج اس امت مسلمہ کو کیا ہوگیا ہے جن کے اندر سخاوت وفیاضی اور خدمت خلق کا جذبہ دھیرے دھیرے مفقود ہوتا جارہا ہے
باالفاظ دیگر یہ امت اس تعلق سے نہایت سنگ دلی اور قساوت قلبی اختیار کرتے جارہی ہے جو اسلامی تعلیمات کے منافی عمل ہے
قارئین کرام : قرآن کریم میں روزہ کا بنیادی مقصد تقوی کا حصول بیان کیا گیا ہے
تقوی بنیادی طور سے دو چیزوں سے عبارت ہے، ایک خوف خدا اور دوسرا حب الٰہی۔ حب الہٰی کا ایک مظہر خدا کے بندوں سے بے پناہ محبت، ہمدردی، اخوت اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی تڑپ ہے رمضان کے پورے ایک مہینے تک بھوک اور پیاس کے امتحان سے گزار ۰کر دراصل لوگوں کو خدمت خلق کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک بندہ بغیر کچھ کھائے پیئے صبح سے شام کرتا ہے۔ اس وقت اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ فقر اور تنگ حالی کیا چیز ہوتی ہے۔ اس وقت اسے تپتی دھوپ میں پیٹ کے لیے پسینے میں شرابور کسی مزدور کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب روزہ دار کا حلق پیاس کی شدت اور گرمی کی تمازت سے خشک ہوجاتا ہے اسے ان لوگوں کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے جن تک پانی کی رسائی نہیں ہوتی۔اس طرح روزہ دار کے دل میں سماج کے غریب، حاجت مند اور معاشی لحاظ سے دبے کچلے افراد کی خدمت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔
ارکان اسلام کی ایک تو ظاہری شکل ہے، مثال کے طور پر کلمہ کا اقرار، نماز کی ادائیگی، زکوۃ کی مقررہ رقم نکالنا، مراسم حج ادا کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا، وغیرہ۔ اور دوسری معنوی یا حقیقی شکل ہے یعنی روح کے ساتھ ان ارکان اور فرائض کو ادا کرنا۔ اسلام میں شکل برائے شکل نہیں بلکہ برائے روح مطلوب ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کی روح اور اس کی معنوی حقیقت فرد اور معاشرے میں ایک زبردست تبدیلی ہے، جس میں محبت، اخوت، ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کی غمگساری اور خدمت خلق کا جذبہ بھی داخل ہے۔ جو لوگ روزہ محض اس کی شکل کے اعتبار سے رکھتے ہیں وہ اپنے زعم کے مطابق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن کی ادائیگی میں سرگرم ہیں، مگر حقیقتاََ روزہ کی روح اور اس کی معنویت سے یہ لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔
اسلام جس خوبصورت سماج کو تعمیر کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد ہمدردی، باہمی محبت، تعاون اور ایثاروقربانی پر ہے جہاں ہر شخص دوسروں کی مدد کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ کسی یتیم، پریشان حال اور لاچار کو یہ فکر نہ ستاتی ہو کہ اس کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں۔
اقامت دین ہو یا اصلاح معاشرہ کا کام اس وقت تک انجام دیا ہی نہیں جاسکتا ہے جب تک کہ خدمت خلق ہماری سرگرمیوں کا حصہ نہ بن جائے۔ بہت سے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ خدمت خلق کے دائرے میں صرف مسلم ہی آتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ خدمت خلق کا کام تمام انسانیت پر محیط ہے۔ آج ہمارے سماج میں بے شمار غیرمسلم غربت وافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور سیاسی وسماجی ظلم کا شکار ہیں۔ ان کے حق میں آوازہ بلند کرنا بھی خدمت خلق ہے۔ آج ہمیں بڑے پیمانے پر یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وقت دنیائے انسانیت تک یہ پیغام پہنچے گا کہ یہ لوگ جس سماج کی تعمیر کی بات کرتے ہیں اس کی بنیاد اجتماعی عدل وانصاف پر ہے، جس میں کسی کے لیے بھی ظلم وستم اور ناانصافی کی گنجائش نہیں ہوگی۔ رمضان ایسے خوبصورت سماج کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
قارئین کرام: احادیث کے اندر رمضان کے مہینے کو ،،شہرالمواساۃ،، کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ بھوک پیاس کی سالانہ رسم نہیں بلکہ خدمت خلق کے لیے سالانہ ٹریننگ ہے، جس کے ذریعے معاشرے کے اہل ثروت اور وسعت رکھنے والے لوگوں کو اس بات کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ غرباء ومساکین، اورمعذور و محروم افراد کی امداد وخیرخواہی اور مالی پہلو سے انہیں مضبوط کرنے کی خدمت انجام دیں۔
خدمت خلق کی یہ ذمہ داری یقیناًایک بھاری ذمہ داری ہے، اس لیے کہ یہاں بندہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے اور بغیر کسی ذاتی مفاد کے دوسروں کی فلاح وبہبود اور خوشی وآسودگی کو اپنا مقصد بناتا ہے۔ اس لیے اس پر اللہ تعالی کا اجر بھی خوب ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا، وہ یتیم چاہے اس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، جنت میں اس طرح قریب ہوں گے جیسے میری یہ دو انگلیاں‘‘۔ اللہ کے رسولؐ لوگوں کو باقاعدہ اس کا حکم دیا کرتے تھے۔ آپ کا ایک ارشاد ملاحظہ ہو: ’’بیمار کی عیادت کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ، اور قیدی کی رہائی کا انتظام کرو‘‘۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’اللہ تعالی بندے کی مدد میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔
یہ ہے وہ مثالی کردار جو رمضان کو شہرالمواساۃ کہہ کر اہل اسلام میں ڈیولپ کرنا مطلوب ہے اللہ تعالٰی ہمیں خدمت خلق کرنے کی توفیق دے آمین
No comments:
Post a Comment