ناظرین کرام : ماضی تا حاضر تاریخ اس بات پربہترین گواہ ہے کہ جب اس کائنات میں آفتاب نبوت طلوع نہیں ہوا تھا تب یہ دنیا نہایت پر خطر ادوار سے گزر رہی تھی شرک و بت پرستی کا بازار گرم تھا ، انسانیت دم توڑ چکی تھی ، قتل غارت گری لوگوں کی زندگی کا مشغلہ بن چکا تھا چوری ڈکیتی ، بے حیائی، سود خوری، اور حرام کاری انکی فطرت ثانیہ بن چکی تھی،ایسی پر آشوب حالات اور دلسوزگھڑی میں رب العالمین کی طرف سے جو پیغام آیا وہ نماز، روزہ، حج،یا زکوٰۃ کا نہ تھا بلکہ وہ،، اقراء،، پڑھنے کا پیغام تھا کیونکہ اللہ حکیم ہے وہ عليم بذات الصدور ہے جانتا ہے کہ بندہ جب تعلی جڑجاےگا تو سماج ومعاشرہ سے تمام قسم کی برائیاں اور ہر طرح کےجرائم کرائم ختم ہو جائینگے
ناظرین کرام :پتہ چلا کہ تعلیم اللہ تعالی کی بہت بڑی بیش. بہا اور عظیم المرتبت نعمت ہے یہ وہ کرن ہے جو راستےکےمسافر کو صرف منزل کا پتہ نہیں دیتی بلکہ منزل مقصود تک پہونچا کر دم لیتی ہے یہ ہماری زندگی کے معراج بھی ہے۔
اسی تعلیم سے معاشرہ میں انقلاب آتا ہے اور باطل اسی سے مٹتا ہے سچائ اچھائ کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ اور مستحکم ھتیار ہے
اسی سے حضرت انسان کی شناخت اور پہچان بنتی ہے جیساکہ خود اللہ تعالی نے فرمایا ،،يرفع الله الذين آمنوا منكم والذين اتوا العلم درجات ،، اللہ تعالی تم سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دےگا اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے ساتھ علوم سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے
ناظرین کرام : دنیا کی تجربات اور مشاہدات کا خلاصہ یہی ہے کہ تمام تر کامیابی وکامرانی رفعت وبلندی شان وشوکت عظمت وجلال کاراز اسی تعلیم میں پنہاں ہے یہ وہ فضل ربانی ہے جس سے مل جائے وہ نبیوں کا وارث بن جائے یہ وہ جوہر ہے جو دل میں اتر جاے تو آدمی بے لوث داعی بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اپنے ماننے والوں کو حصول تعلیم پر بہت زیادہ ابھارا ہی نہیں بلکہ جنت کی بشارت بھی دی ہے چنانچہ اسکی اہمیت کو آپ نے ایسے بھی اجاگر کیا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کی رہائ صرف علم سیکھانے پر کردی تھی
ناظرین : مذہب اسلام نے اپنے متعبین کے لئے حصول علم کو واجب قرارا دیا ہے جیسا کہ پہلی وحی ،،اقراء،، سے ظاہر ہے اسی طرح امام بخاری نے تعلیم کی فضیلت وضاحت کرنے کے لئے اپنی کتاب صحیح بخاری میں جو باب قائم کیا ہے،، باب العلم قبل القول والعمل،، اور استشہاد میں ،،فاعلم انه لا اله الا الله،، آیت کریمہ پیش فرمایاتاکہ علم کی فضلیت اجاگر ہو سکے
یہ وہ تعلیم ہے جو خالق ومخلوق کے درمیان رشتہ کو مضبوط کرتی ہے انسان کو جہالت و ضلالت کی آفات و بلیات سے نکالنے میں ممدومعاون ہی نہیں بلکہ رب العالمین کے احکام وفرامیں بجا لانے پر تاکید وتائید بھی کرتی ہے
ناظرین کرام : تعلیم کی اہمیت سے متعلق نصوص کے انبار ہیں تاہم حضرت آدم و ابلیس کے واقعہ صادقہ میں کس قدر رب العالمین نے ہمارے لئے نصیحت موعظت درس وعبرت رکھا ہے ،، وعلم آدم الاسماء كلها ثم عرضهم علي الملائكة،،،،،،،
واذ قلنا للملائكة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابيلس ابي واستكبر وكان من الكافرين،، ترجمہ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا اس نے انکا ر کر دیا معلوم رہےکہ جب اشخاص و اشیاء کا نا م اور انکے خواص وفوائد کا علم اللہ تعالی نے القاء والہام کے ذریعہ سے حضرت آدم کو سیکھلادیا اور علم کی اہمیت وفضلیت تا قیامت باقی رکھنے کے لئے فرشتوں کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم صادر فرمایا تو ابلیس نے اس حکم الہی کا انکار کردیا
ان دونوں آیتوں سے بنیادی طور پر چند باتیں واضح ہوتی ہیں
(1)غیب کا علم فرشتوں کے پاس بھی نہیں تو ہمارے اوقات ہی کیا ہیں
(2)اگر آپ کے پاس علم ہے تو دنیا آپ کے سامنے گھٹنا ٹیکے گی آپ کو سر کا تاج بنا لےگی اور آپ کو عزت وقار کی نگاہ سے دیکھے گی
(3)علماء کرام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا یہ ایک شیطانی عمل ہے جو بھی علماء کی قدر نہیں کر تا ہے وہ اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنائےگا
لہذا ہمیں ایسی حرکت سے گریز کرنا چاھئے اور ان سے اپنی علمی تشنگی و پیاس بجھانے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے
بہر حال بات چل رہی تھی تعلیم و تعلم کی تو جگ ظاہر ہے یہ دور علم وہنر کا دور ہے ساری دنیا ترقی کی راہ پر قدم بڑھا رہی ہے ہر روز نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں جدید ٹکنا لوجی کی بدولت انسان ہواؤں میں اڑ رہا ہے اور گھنٹوں کا کام منٹوں میں انجام دیا جارہا ہے سائنسی ترقی اپنے آپ ایک مثال بن گئ ہے
لیکن افسوس! جس قوم نے علم و حکمت کا دریا بہا یا علوم وفنون کے ماہرین و بڑے بڑے محدثین ،فقہاء امت ،خطباء اسلام، سیاست داں ،سائنس داں، مفکر، صحافی ،اورادیب دنیا کو دیا جس قوم میں بڑی بڑی لائبریریاں سب سے قیمیتی سرمایہ سمجھی جاتی رہی کتابوں سے وابستگی اپنی زندگی کا مشغلہ تھی اور کتابوں سے ادنی بے رخی و بےاعتنائ کا اتنا بڑا خسارہ سمجھا جاتا ہو
ابن ابی غسان کا بیان ہے ،،لا تزال عالما ما كنت متعلما فاذا استغنيت كنت جاهلا ،،جامع بيان العلم
تب تک ہی آپ عالم ہوتے ،جب تک متعلم بنے ہوتے
لیکن جیسے ہی بے نیازی برتنے لگتے تو جاہل بن جاتے
جس قوم نے الجبراء ،علم کیمیاء اور علم طب ہی نہیں بکلہ ایک ہزار ایک چیزوں کو ایجاد کیا جس قوم کے رہبر وقائد کا اعلان ،،اني بعثت معلما،،( میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں) ہو جن کو آسمانی پیغام،، قل ربی زدنی علما،، دیا گیا ہو جس قوم کے مذھب کی بنیاد ہی علم پر ہو جس قوم کا متفقہ فیصلہ یہ ہو،، العلم بغير عمل وبال والعمل بغير علم ضلال،، یعنی علم بلا عمل مصیبت ہے اور عمل بلا علم گمراہی ہے
آج وہی قوم رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ تعلیم سے دور ی اختیار کر رہی ہے نتیجتاً ہم اپنے حقوق اور ذمےداری سے بےخبر ہو تے جا رہے ہیں اور دین اور دنیا دونوں میں بچھڑتے جا رہے ہیں
اے اللہ ؛ ہم تمام مسلمانوں کو نفع بخش علوم وفنون کا سدا متعلم بنا اس میں بے نیازی سے بچا آمین
اجمل حسین السلفی
خادم :جمعية الفلا ح التعليمية
صاحب گنج جھارکھنڈ
No comments:
Post a Comment