روزہ انسانیت کا پیغام ہے
محترم حضرات : یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے روزہ انسان کو حیوانیت سے صرف نکالتا ہی نہیں بلکہ ان کو ملکوتی صفات سے مزین بھی کرتا ہے ، یہی وہ عمل ہے جس سے تزکیہ نفس بھی حاصل ہوتا ہے چنانچہ اللہ رب العزت نے روزے کو تزکیہ نفس اور تقویٰ کا عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا،، یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (۱۸۳)
ترجمة: اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
مگر افسوس صد افسوس ! کہ ہم ابھی تک اپنے ظاہر و باطن خلوت جلوت کی اصلاح کر نہ سکے
آج بھی اس قوم میں جھوٹ ،چغلی، غیبت، سود خوری، شراب نوشی، زناکاری ،چوری ڈکیتی اور قتل و غارتگری کی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جوکہ ،، لعلكم تتقون،، کے مخاطب ہیں
واضح رہے کہ جھوٹ ودیگر جرائم جس طرح ایک مسلمان کی شان میں نہیں کرسکتے ویسے ایک غیر مسلم کی شان میں بھی سخت منع ہے تکریم انسانیت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم ناحق کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کریں میل ومحبت سے زندگی بسر کریں
قارئین کرام : اگر انسان ایک مہینہ آداب ظاہری و باطنی کو بجالاتے ہوئے روزے رکھے تو پھر اس کی برکات سے بندہ مومن کی سیرت و کردار میں صدق و اخلاص، زہدو ورع، صبرو استقامت، تحمل و برداشت، عبادت و ریاضت ایسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں جو پورا سال انسان کو ضلالت وگمراہی میں بھٹکنے سے بچائے رکھتے ہیں اور انسان استقامت کے ساتھ نیکی و طہارت کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر رمضان مبارک کا مہینہ آجاتا ہے جس میں پھر وہ ایک ماہ کی روحانی ورکشاپ میں تربیت لے کر رحمت خداوندی کے سایہ میں نئے سال میں قدم رکھتا ہے
اسی طرح روزہ رکھنے سے اہل ثروت کے دلوں میں اکثر فاقہ سے رہنے والے دوسرے انسانوں کے لئے ہمدردی اور غم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ روزہ کی صورت میں عملی طور پر بھوک اور پیاس کے تجربہ سے گزر رہے ہوتے ہیں اور بھوک اور پیاس کا یہ تجربہ انہیں غریبوں اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کی مدد پر ابھارتا ہے لہذا ہم جہاں مسلمانوں کو زکوٰۃ کی رقم سے تعاون کرتے ہیں وہیں ہم اپنے غیر مسلم غریب محتاج قلاش کی بھی خبر گیری کریں اور نفلی صدقات اور خیرات سے بھرپور تعاون کریں اسی طرح پڑوسی کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں اسے بھی ادا کرے
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت کا ذکر کرتے ہوئے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت موسلا دھار بارش کی مانند ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں یوں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے مگر ماہ رمضان میں جب جبرائیل امین آپ سے ملاقات کرتے تو عام دنوں کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ (ظاہر ہے کہ یہ سخاوت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنی امت کے غرباء پر ہی تھی) اسی طرح ماہ رمضان ہی میں بالعموم لوگ صدقہ فطر کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور عام صدقہ کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ یوں ایک طرف دلوں سے دنیا کی محبت نکلتی ہے تو دوسری طرف صدقہ و زکوٰۃ کی ان رقوم سے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی مالی حالت بھی بہتر ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں معاشی عدم توازن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ماہ رمضان میں صدقہ و خیرات کی رغبت دلاتے ہوئے اس کے اجر و ثواب میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔
قارئین کرام: روزہ صرف عبادت ہی نہیں بلکہ احساس ذمہ داری کا بھی نام ہے چنانچہ روزہ رکھنے سے انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ایک اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کے افراد کے اندر اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا پابندی کا درس ہے
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہی قومیں ترقی و عروج کی منزل نشیں ہوتی ہیں جو وقت کی قدر کو پہچانتی ہیں اور اپنے فرائض کو وقت پر ادا کرتی ہیں۔
قارئین کرام: روزہ جس طرح سے معاشرے کی اخلاقی، قانونی، تہذیبی اور اجتماعی اصلاح کی فضا پیدا کرتا ہے اسی طرح مسلم معاشرے کے تمام افراد کے اندر زبردست جماعتی احساس پیدا کرتا ہے اور امت مسلمہ میں ایک عالمگیر برادری کے احساس کو پختہ بھی کرتا ہے سچ تو یہ ہے کہ روزہ نسلی اور طبقاتی تفاخر کو ختم کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے جیسا کہ افطاری کے وقت امیر و غریب سب ایک دستر خوان پر جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوکر خوشی و مسرت کی فضا میں روزہ افطار کرتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہمارے صیام وقیام کو قبول فرمائے آمین یا رب العالمین
از قلم: أجمل حسين السلفی
صاحب گنج جھارکھنڈ
No comments:
Post a Comment