Friday, June 23, 2023

ماچس کو matches کیوں کہتے ہیں؟ || Machis ko Machis Kyon Kaha jata hai

 

ماچس کو matches کیوں کہتے ہیں؟


" آگ جلانے کے فن کے ارتقاء کی روداد "


آگ جلانے کی تیلیوں کے مجموعے کو ہم ماچس کہتے ہیں جو انگریزی لفظ matches کا ہندوستانی تلفظ ہے ۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ انکو matches کیوں کہا جاتا ہے؟

اگرچہ انسان لاکھوں برس قبل جب وہ جنگل میں درختوں پر اور غاروں میں رہائش رکھتا تھا ، آگ کی طاقت اور فوائد و نقصانات سے آگاہ ہوچکا تھا تاہم ماچس جیسی آگ جلانے کی آسان اور  باسہولت ہنرمندی سے آج سے دو سو برس قبل تک بالکل آگاہ نہیں تھا ۔

ماچس کی موجودہ شکل میں ایجاد ایک انگریز کیمسٹ John Walker نے سنہ 1826 میں کی ۔

انگریزوں نے جب ہندوستان پر جدید جنگی ہھتیاروں کی مدد سے قبضہ کیا تو اپنے ساتھ جہاں دیگر علوم اور ہنرمندیاں لائے وہیں پر ماچس بھی لائے ۔

اس پر غالب نے یہ تبصرہ کیا تھا کہ

 "ہم ہندوستانیوں کو ان انگریزوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے جو اپنی جیب میں آگ لیے پھرتے ہیں" 

غالب کا اشارہ ماچس کی جانب تھا جس سے ہندوستان کے لوگ سنہ 1840 - 1850 تک واقف نہیں تھے ۔


اس سے ہزار بارہ سو برس قبل چین کے لوگوں نے چھٹی صدی عیسوی میں کیمائی طریقے سے گندھک کے تیزاب اور فاسورس کے ملاپ سے آگ جلانا سیکھ لیا تھا ۔ لیکن یہ بالکل بھی محفوظ طریقہ نہیں تھا ۔ اس میں آگ جلانے والوں کے اپنے جل جانے کا بہت زیادہ امکان ہوا کرتا تھا ۔  تاہم یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ انسان اپنی مرضی کے مطابق جب چاہے آگ جلانے کے قابل ہوگیا تھا ۔ 

چین سے آگ جلانے کا یہ فن ساری دنیا کے لوگوں تک پھیل گیا ۔

اس سے بھی پہلے :-

کیمیائی طریقے سے آگ جلانا سیکھنے سے قبل انسان محدب عدسے سے سورج کی کرنوں کو ایک نقطہ پر مرتکز کر کے خشک گھاس پھونس کو جلاتا اور پھر اس آگ میں سوکھی لکڑیاں کوئلے وغیرہ مسلسل ڈالتا جاتا تاکہ آلاؤ بجھنے نہ پائے ۔ اور اس علاقے کے لوگ اس الاؤ سے اپنی ضرورت کے لیے انگارے حاصل کر لیا کرتے ۔


پتھر کے دور اور اس سے بھی قبل جنگل اور غاروں میں رہائش کے دور میں جب انسان کسی بھی طور آگ جلانے کا اہل نہ ہوا تھا ، انسان اپنے تجربے اور مشاہدے کی بدولت آگ کی افادیت اور نقصان سے آگاہ ہوچکا تھا کہ آگ خطرناک جنگلی کیڑوں اور خونخوار جانوروں کو دور رکھتی ہے اور سردی سے بچاتی ہے لہذا انسان نے آگ کو اپنے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کے لیے عقل کا استعمال شروع کیا ۔

گرمیوں کے موسم میں جنگل کے خشک درختوں میں رگڑ کی وجہ سے آگ لگ جاتی یا کبھی آسمانی بجلی گرنے سے کہیں آگ لگ جاتی تو انسان اس آگ کو غنیمت جانتے ہوئے اسے بجھنے نہیں دیتا تھا ۔ وہ اس آگ کو کسی قریبی غار  تک لے جاتا تاکہ کھلی ہوا یا بارش سے بجھنے نہ پائے اور جلتی ہوئی اس آگ میں مسلسل لکڑیاں ڈالتا رہتا ۔ 

افریقہ میں ایسے کئی غار دریافت ہوئے ہیں جن میں راکھ کے کئی کئی میٹر گہری تہیں پائی گئی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں ۔


مضمون کے شروع میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ matches  کو matches کیوں کہا جاتا ہے ۔

ہمارے بیشتر فاضل قارین بین السطور پڑھ کے اس سوال کا جواب جان ہی چکے ہونگے تاہم باقی ساتھیوں کی آسانی کے لیے عرض ہے کہ چونکہ تمام تیلیاں شکل اور سائز میں یکساں ہوتی ہیں اس لیے انہیں matches کا نام دیا گیا ۔

اب تو آگ جلانے کا فن اپنے ارتقاء کے اگلے دور میں داخل ہوچکا ہے ۔ 

بس چولہے کا ناب گھمائیے ایک ٹک کی آواز آئے گی اور آپکا چولہا جل اٹھے گا ۔


دراصل جب انسانی علم کی مقدار نسل در نسل اکھٹا ہوتے ہوتے ایک خاص حد تک پہنچتا ہے تو ایک چھلانگ لگا کے کسی ایجاد یا دریافت کا سبب بن جاتا ہے ۔

 یہی علم کے ارتقاء کا جدلیاتی قانون ہے ۔


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages

SoraTemplates

Best Free and Premium Blogger Templates Provider.

Buy This Template