ہمارے بچے ہمارا مستقبل
از قلم:أجمل حسین السلفی
صاحب گنج جھارکھنڈ
قارئین کرام:آج کل لوگوں میں جانے انجانے بچوں کی تربیت سے متعلق بڑی لا پرواہی دیکھی جا رہی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ بڑی بے دردی کے ساتھ انکی زندگی کے ساتھ کھیلواڑ بھی ہو رہا ہے بالخصوص جھارکھنڈ کے کئی ایک اضلاع جیسے صاحب گنج پاکوڑاور گڈا ان جگہوں میں کم سن بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے دور شہروں کے کارخانوں اور ہوٹلوں میں بھیج دئیے جاتے ہیں
اور جواں والدین گھر بیٹھے انکی کمائی سے عیاشی کرتے ہیں پھر کچھ سال بعد نتیجہ بہت خطرناک سامنے آتا ہے کہ جب والدین بوڑھے ہوتے ہیں تب بیٹا جوان ہوتا ہے پھر اپنی زندگی الگ تھلگ بسا لیتا ہے ایسے والدین کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتا ہے کیوں کہ بچہ تربیت سے خالی ہوتا ہے حتی کہ انہیں انسانیت کی بھی تعلیم نہیں دی گئی اور نہ ہی انہیں حقوق والدین سے روشناس کرایا
اب دیکھتے ہی وہی بچہ والدین کے لئے وبال جان بن جاتا ہے
قارئین کرام: اللہ رب العالمین کی بے شمار نعمتوں, نوازشوں اور احسانات میں سے ایک نعمت بیش بہا نعمت اولاد ہیں,اس نعمت کی قدرومنزلت ان لوگوں سے معلوم کریں جو اس نعمت عظمیٰ سے تمام تر کوششوں کے باوجود محروم ہیں, وہ آج بھی اس غیر معمولی نعمت کےحصول کی خاطر اپنا قیمتی وقت اور مال ودولت لٹا دینے کو تیار ہیں اور کیوں نا ہوں؟کیوں کہ اولاد خالق کائنات کا سب سے گراں قدر تحفہ ہیں,یہ ایسا تحفہ ہے جس کے متعلق اللہ کے مقدس انبیا ء کرام نے دست دعا دراز فرمایا, جس کاذکر سورۂ ،،الصفت ،،میں کچھ اس طرح ہے”الہی ! مجھے نیک اولاد دے”اللہ کا فرمان عالیشان جاری ہوا”تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی, ایک لائق عقلمند لڑکے کی-
قارئین کرام: یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اولاد مالک کائنات کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہیں.لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں اولاد ایک عظیم نعمت ہیں وہیں پہ آزمائش بھی چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امر کی نشاندہی کچھ اس طرح فرمائی ہے:”تمہارے مال اور تمہارے بچے آزمائش ہیں, اور اللہ کے پاس بڑاثواب ہے
مذکورہ آیت کا مضمون تو تمام مسلمانوں کو خاص وعام شامل ہے,سارے مسلمان مخاطب ہیں.اور سب کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ مال اور اولاد آزمائش اور امتحان کا ذریعہ اور سبب ہیں.بایں وجہ روز قیامت والدین سے اولاد کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی کہ انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت کیسی کی,اولاد رب کی امانت ہوتی ہیں.لہذا امانت میں خیانت حرام ہے.بچوں کو صحیح اوردرست تربیت دینا ازحد ضروری ہے.کیوں کہ انسان کمزور پیدا ہوتا ہے,اسے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے, وہ بےسروسامان ہوتا ہے, اسے نصرت وحمایت درکار ہوتی ہے,وہ لاشعوری کے مرحلے طے کررہا ہوتا ہے, عقل آموزی کی ضرورت ہوتی ہے.وقت ولادت عموما ہربچہ جن چیزوں کا محتاج ہوتا ہے.وہ جسمانی اور ذہنی نشوونما ہے.اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ صحیح پرورش کریں.کیوں کہ بچے کی پہلی تعلیم گاہ ماں کی گود ہوتی ہے.وہ اپنی حیات نو کا پہلا سبق وہی سیکھتا ہے.سائنس کی جدید تحقیقات نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ بچے کی ذہنی, اخلاقی اور جسمانی تربیت کا اصل مقام اسکول اور کالج نہیں بلکہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے.بچہ بہت ساری باتیں اپنے والدین اور گھر کے افراد سے سیکھتا ہے,ان کے اطوار وعادات نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بعد میں اس کی شخصیت کا جزبن جاتےہیں.گھرکےافرادکے طرز عمل سے وہ محبت, ہمدردی کے جذبات یا پھر خود غرضی ,بےایمانی اور نفرت جیسی امراض مہلکہ کا شکار ہوتا ہے,اگر والدین اور گھر کے دیگر افراد مہذب, تعلیم یافتہ, خوش اطوار وخوش اخلاق ہو تو اس گھر میں بچے کی تربیت بھی احسن طریقے سے ہوگی۔
یوں تو اپنی اولاد کاروشن وخوش آئند مستقبل کے ہر والدین مشتاق ہوتے ہیں.اور کوئی بھی والدین ایسے نہیں ہوں گے جو اس الزام کو تسلیم کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہیں, حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہوتے ہیں.بچوں کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں.اگر چہ ظاہری اعتبار سے محبت کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے بایں طور کہ جب بھی ان کے بچوں کے ساتھ چھوٹا یا بڑا الزام ناانصافی کرتے ہیں تو اس وقت وہ انتقام کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں ,لیکن وہ خود بڑی بڑی ناانصافیاں اپنی اولاد سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مثلا:آج کے اس پرفتن دور میں نونہالوں کے ہاتھ میں موبائل فون تھمانا گویا انھیں زہر ہلاہل دینے کے مترادف ہے.لیکن آج شاید ہی ایسے والدین ملیں گے جو اپنی اولاد کو موبائل فون سے دور رکھتے ہوں,نوبت بایں جا رسید کہ بچہ اگر رورہا ہو تو خاموش کرنے کےلیے موبائل ہی کا سہارا لیتے ہیں, کارٹون, گانے, سیریل اور فلمیں وغیرہ لگاکر اپنے آپ کو بچے سے آزاد کرکے خود بھی اسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں,حالاں کہ ایسے وقت میں بچے کوان کی سخت ضرورت ہواکرتی ہے.بچے پالنا بڑاکام نہیں ہے, یہ کام پرندے اور چوپائے بڑے اچھے انداز میں صدیوں سے کرتے آرہے ہیں ,بڑاکام بچوں کی تربیت ہے-
واضع رہے کہ تربیت توجہ اوروقت مانگتی ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ والدین اور
گارجین حضرات اس جانب توجہ دینے کے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ جگ ظاہر ہے کہ عہدطفولیت میں موبائل فون کا چلن ان کی اخلاقی تربیت میں کس قدر رکاوٹیں ہوتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ شرافت,تمیز اورادب واحترام کا قلع قمع ہوتا جارہا ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس! بہت کم لوگ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں,ناخواندہ تو درکناربہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس صفت سے محروم نظر آتے ہیں,انھیں گالیاں دیتے, ڈانٹتے ڈپٹتے اور جھڑکتے رہتے ہیں, بات بات پر ٹوکتے ہیں,ان کی حرکات و سکنات میں عیب نکالتے رہتے ہیں, انھیں نالائق, کام چور, بے وقوف اور گدھا کہہ کر پکارتے ہیں,یہ لعن وطعن بچے کی شخصیت پر نہایت بری طرح اثر انداز ہوتی ہے.اس طرح کے وتیرے سے بعض اوقات بچے کے دل میں والدین کے خلاف گہری نفرت پیدا ہوجاتی ہے جو آخری عمر تک دور نہیں ہوتی.
قارئین کرام: ,ہمارے بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں
لہذا ان کے حقوق کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے, معاشرے میں انھیں نمایاں مقام دلانے کے لیے صحیح تعلیم و تربیت اور اچھی پرورش کی بے حد ضرورت ہے.بچوں کے ساتھ شفقت بھرا رویہ بھی ان کی صلاحیتوں میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے. بچوں کی تربیت سے قبل والدین کا بااخلاق وبامروت ہونا ضروری ہے کیوں کہ بچہ قول سے کم اور عمل سے زیادہ سیکھتا ہے
لہذا بچوں کی تربیت سے قبل والدین کا اچھے اخلاق وکردار سے مزین ہونا بہت ضروری ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاہیں اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی توفیق رفیق عطا فرمائے. آمین
No comments:
Post a Comment