بچو ں کی پہلی درسگاہ ماں کی گود
قارئین کرام : ماں کی گود بچوں کے لئے عظیم سرمایہ، بیش بہا نعمت اور تعلیم و تربیت کے لئے سب سے اعلی اور مناسب جگہ ہوتی ہے اسی گود میں بڑے بڑ ے محدثین کرام، فقہاء عظام، دانشوران اور سائنس داں حضرات نے زندگی گزارنے کا سلیقہ و طریقہ اور باہمی الفت ومحبت، ایثار وقربانی ، ہمدردی و غم خواری جیسے بہترین اوصاف سے متصف ہوئے اسی طرح معاشرہ کی ترقی کا صیغہاے راز کی جانکاری اور دنیا وآخرت کے بے شمار اسلامی آداب، قوانین وضوابط سے واقف بھی ہوئے-
ماں کی گود اس حسین گلستاں کی طرح ہے جسمیں صرف اور صرف کامیابی وکامرانی کے پھول کھلتے ہیں ہمارے اکابرین کا خیال بھی یہی ہے کہ ماں کی گود کسی بھی یونیورسٹی سے کم نہیں یہ ایسی دانش کدہ ہے جہاں کی تعلیم وتربیت بڑی پائدار ہوتی ہے انسان اپنی آخری سانس تک لاکھ کوشش کے بعد بھی نہیں بھول پاتا یہ واحد جگہ ہے جہاں ہر ایک کے لئے یکساں طور پر رحمت و برکت کی امیدیں کی جاسکتی ہیں بشرط کہ ماں صالحہ اور نیک ہو نیز (Guide lines) فراہم کرنے کا جذبہ اور کچھ سیکھنے سکھانے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتی ہو اسلئے بالخصوص ماں کو بڑا محتاط رہنے کی ضرورت ہے ہمیشہ اللہ کی عبادت و اطاعت اور وقت کی قدر قیمت کا عملی مظاہرہ بچوں کے سامنے کرنا چاہئے اس کے ان گنت فوائد مرتب یوتے ہیں بچوں کے مستقبل سنوارنے کا یہی طریقہ بھی ہے
قارئین کرام : ماں ہی کی حسن تربیت اور بہترین کردار سے بچوں میں بلند عزائم ٫ اونچا خیال، شاہین کی پرواز، برق کی رفتار اور فولادی قوت پیدا ہوتی ہے جسکی بدولت ہر انسان کامیابی کے تمام تر مراحل طئے کر سکتا ہے
چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ تمام حکیموں اور ڈاکٹروں کے علاج کی ناکامی کے بعد ماں کی دعاؤں کا اثر کار فرما ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے زیست کے پر پیچ مسائل حل ہو جاتے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ بچوں کی لاچارگی ،قلاشی، زبوں حالی، نامرادی اور بے بسی خوش حالی میں تبدیل ہو جاتی ہے
سچ تو یہ ہے کہ انسان کے تمام تر عروج وارتقاء عہدے و مناصب کے حصول میں ماں ہی کا اہم کردار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ احادیث کی کتابوں میں ماں کے نیک بننے کا ذکر ہی نہیں بلکہ تاکیدی حکم بھی موجود ہے واضح رہے کہ ماں کے نیک ہونے کے لئے نیک سیرت اور دین دار بیوی کا انتخاب از حد ضروری ہے جیساکہ ارشاد فرمایا ،،تنكح المرآة لاربع لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك یعنی کسی عورت سے ان چار چیزوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے- اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب نسب کی وجہ سے ، اس کے حسن وجمال کی وجہ سے ، اور اس کے دین کی وجہ سے لیکن تم دین والی عورت سے نکاح کرکے کامیاب ہو جا - تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں مفہوم یہ ہے کہ شادی کے وقت یہودی عورت کا مال دیکھتے ہیں عیسائی خوصورتی دیکھتے ہیں عرب خاندان وقبیلے دیکھتے ہیں اور تم دین دار عورت سے شادی رچا کر ازدواجی زندگی کو کامیاب بنالو -
قارئین کرام : ماں جب نیک دیندار ،موحدہ، متبع سنت، زبان کی سچی، بات کی پکی ،نظافت و طہارت کا عادی، سلیقہ مند ،ہنر مند، نظم ضبط اور امور خانہ داری میں قابل اور ماہر ہواپنی اولاد کو اللہ کی امانت سمجھتی ہو تو یہ ساری خوبیاں بچوں کے قلب و جگر میں دھیرے دھیرے جذب ہونے لگتی ہیں اور یہ امید بھی لگائی جا سکتی ہے کہ بچہ اپنی ماں کے اوصاف حمیدہ اوراخلاق حسنہ کا عکس ہوگا کیوں کہ نیک مائیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں اور انہیں باشعور بناتی ہیں قدم قدم پر بچے کی غلطیوں کی نشان دہی کرتی ہیں مفید مشوروں سے نوازتی ہیں اس سلسلے میں بہت سی ماؤں کا ذکر ملتا ہے جسکی فہرست بہت طویل ہے ہم چند ہی ماؤں کا ذکر کریں گے ان شاء اللہ العزیز
حضرت عبد اللہ بن مبارک کی ماں، حضرت انس کی ماں، عبد اللہ بن زبیر کی ماں، امام بخاری کی ماں، عبد القادر جیلانی کی ماں اور موجودہ وقت میں امام حرم عبد الرحمن السدیس کی ماں قیامت تک آنے والی خواتین کے لئے بہترین نمونہ ہیں ماضی قریب میں مکہ کی اس ماں کو نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنی بگڑی ہوئی اولاد کے سامنے یہ کہا تھا ،، يا ولدي ! والله! ماجئت الي الحرم الاان ادعو لك يا ولدي! والله ما نسيتك من دعائی ولا ليلة
اے میرے بیٹے ! اللہ کی قسم آج میں حرم میں صرف تمہاری ہدایت کی دعا ہی کے لئے گئی تھی - میرے بیٹے ! اللہ کی قسم مجھ پر کوئی رات ایسی نہیں گزری جب میں نے تمہاری ہدایت کے لئے دعا نہ کی ہو - ،، (تفصیل کے لئے ملاحظہ کریں سنہرے نقوش )
قارئین کرام : لیکن اگر بچے کی ماں پھوہڑ ،بددین ،ناہنجار ، بد خلق،بد طینت ، اور غیر ذمہ دار قسم کی ہو تو بچوں میں وہ عکس بھی دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ بچے والدین کے نقش قدم پر چلتے ہیں جیساکہ ارشاد فرمایا ،، كل مولود يولد علي الفطرة فابواه يهودانه و ينصرانه اويمجسانه یعنی ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پس انکے والدین انکو چاہے یہودی ، نصاری یا مجوسی بنادے چونکہ بچوں میں اصل اخذ وترک یعنی لینے اور چھوڑنے کا زمانہ سات سال تک کا رہتا ہے جو کہ ماں ہی کی نگرانی میں گزرتا ہے لہذا ماں اگر چاہے تو اولاد کو سنوار کر دنیا اور آخرت کے لئے کامیاب بنا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس بابت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،والمرآة راعية علي بيت زوجها و بولده،، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کے نگراں ہے
مطلب یہ گھر کے باہر کی ذمہ داریاں شوہر سنبھالے ، اندرون خانہ بیوی سنبھالے تو ان شاء اللہ بچے کبھی خائب و خاسر نہیں ہونگے
اللہ تعالی ہم سب کو حسن عمل کی توفیق دے اور بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت کا محافظ بنا ئےآمین
اجمل حسین السلفی
خادم : جمعية الفلاح التعليمية
بڑا سونا کو ڑ صاحب گنج جھارکھنڈ
No comments:
Post a Comment