Friday, April 28, 2023

مثالی سماج کی تشکیل میں عیادت مریض کا کردار

 

مثالی سماج کی تشکیل میں عیادت مریض کا کردار


قارئین کرام: آج خود غرضی، مفادپرستی اورمادیت پسندی کے  دور میں معاشرے کے جملہ انسانی حقوق ایک رسم بن کے رہ گئے ہیں۔

   چنانچہ ہم  میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو انکی عیادت کے لئے جانا درد سر سمجھا جاتا ہےحالانکہ یہ ایک انسانی حق ہی نہیں بلکہ اخلاقی فریضہ بھی ہے جس سے  شرعی و طبی طور پر بے شمار فوائد ونتائج مرتب ہوتے ہیں 

اس مضمون میں انہیں حقائق سے لوگوں کو جوڑنے کی معمولی کوشش کی گئی ہے امید ہے کہ آپ پڑھنے کے بعد دوسروں تک ضرور شئر کریں گے اللہ تعالٰی آپ کو بہتر بدلہ دے آمین 

قارئین کرام: اسلام دینِ الفت و انسیت ہے؛جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کے حوالے سے بھی زریں اصول اور بے نظیر احکام بیان کیےگئے ہیں 

میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس فراموش کردہ عظیم سنت اور اہم ترین عبادت کی فضیلت و اہمیت اجاگر کرنے سے پہلے طبی اعتبار سے عیادت مریض کے کیا فوائد ونتائج ہیں ؟ حوالہ قرطاس کردوں 

چنانچہ اطباء اور ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کے لئے جاتا ہے اور اسے صبر و اجر اور عزم وحوصلہ کی تلقین کرتا ہے تو اس سے مریض کے اندر قوت مدافعت یا امیونٹی بڑھتی ہے اور اس کی جلد شفاء یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں

 لہذا ہم بھی دوسروں کا دکھ درد اپنے سینوں میں محسوس کریں اور انہیں دیکھ کر اللہ کی پے پناہ نعمتوں کا شکر بجالائیں اور اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کریں کیونکہ عیادت مریض باہمی الفت ومحبت اور اچھے سماجی و معاشرتی تعلق کے قیام اور تشکیل کا ذریعہ بھی اسی طرح یہ عمل مریض کے لئے بھی باعث سکون اور صبر وشکر ہے 

قارئین کرام: عیادت کے معنی مطلق”زیارت“ کے آتے ہیں؛لیکن اس کا مشہور اِستعمال ”زیارۃ المریض“یعنی مریض کی زیارت کرنے کے معنی میں ہوتا ہے اور

ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عیادت کرناتو انسانی حق ہے؛مگر اس سےآگے بڑھ کر انسانیت کی بنیاد پربلاتفریق مذہب و ملت غیرمسلم برادران وطن کی مزاج پرسی بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں، اگراس میں تبلیغ اسلام کی نیت کرلی جائےتو پھرنور علی نور۔ روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیرمسلم یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے  اور اس کو اسلام کی دعوت دی، اوروہ لڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی سے متاثر ہوکر آپ کی بے لوث دعوت کے نتیجے میں مسلمان ہوگیا۔ ( بخاری ) اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب کی بیمار پرسی اور دعوت ایمان کے لیے بھی تشریف لےجاتے تھے۔ (بخاری ) کسی بھی بیمار کی عیادت کوخود اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتلایاگیا، اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے، اُسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی؛لیکن عیادت کی فضیلت اجاگرکرنے کے لیے اس طرح مثال بیان کی گئی، چنانچہ حدیثِ قدسی میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی، وہ کہے گا :اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا؛لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، وہ کہے گا اے پروردگار میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے تو اللہ فرمائے گا:کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؛لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا، کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا ؛لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، وہ کہے گا:اے پروردگار!میں تجھے کیسے پانی پلاتا حالانکہ تو تو رب العالمین ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا :میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا؛لیکن تونے اس کو پانی نہیں پلایا  اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا۔ (مسلم ) 

ایک اور روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ﷜جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں، فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : بے شک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہےتو وہ مستقل جنّت کی میوہ خوری میں مصروف رہتا ہےیہاں تک کہ وہ عیادت سےواپس آجائے۔ (مسلم)

قارئین کرام: بیمارپرسی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ نےیوں ارشاد فرمایا:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کے لیے اگر صبح کے وقت جائےتو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اُس کیلئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں اور جنت میں اُس کیلئےایک باغ مقرر ہوجاتا ہے۔ (ترمذی شریف)

 ان روایات کی روشنی میں علماء نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے  لہذا تیمارداری کی اس سنت کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ قابل مبارک باد ہے وہ دینی اور رفاہی تنظیمیں جو اس حوالے سے سرگرم عمل ہیں؛مگر ان ہی پر اکتفا کرنا ٹھیک نہیں؛ بلکہ حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اسلام کا پیغام انسانیت لوگوں تک پہونچانا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس عظیم عبادت میں حصہ لیتے رہنے اور بہ قدر وسعت اس کو وقتاً  فوقتاً انجام دینے کی توفیق عطا

جاری ۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages

SoraTemplates

Best Free and Premium Blogger Templates Provider.

Buy This Template