طاق راتوں میں وعظ ونصیحت کے مسئلے پر ایک مختصر تعلیق
کسی عمل کو سنت سمجھ کر کرنے اور سنت سمجھے بغیر ضرورت کے تحت کرنے میں فرق ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ طاق راتوں میں وعظ ونصیحت کا اہتمام سنت نبوی نہیں ہے ۔
لہٰذا اسے سنت قرار دینا بلا شبہ بدعت ہے۔اسی طرح طاق راتوں میں اضافی اہتمام کے ساتھ وعظ ونصیحت کی مجلسیں منعقد کرنا جن سے رات جگائی کے شرعی مقاصد ہی فوت ہو جائیں اس طور پر کہ رات کا اچھا خاصہ وقت اسی میں صرف ہو جائے یا دور دراز سے مقررین بلا کر یا خاص اہتمام کے ساتھ وعظ ونصیحت کی محفلیں سجائی جائیں یہ بھی غیر مشروع اور شب بیداری کی روح کے منافی ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور تلاوت قرآن کا حکم دیا ہے لہٰذا اصل اور مطلوب کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کی طرف منتقل ہونا ہدی نبوی کے خلاف اور سلف صالحین کے طریقے سے انحراف ہے جس سے اجتناب لازمی ہے۔
البتہ اگر کوئی عالم کسی خاص مسجد یا مجلس میں رات کے شروع میں اختصار کے ساتھ لوگوں کے سامنے طاق راتوں میں کئے جانے والے چند اعمال کا تذکرہ کرتا ہے یا ان راتوں میں عبادت کرنے کے فضائل و آداب بیان کرتا ہے اور ان راتوں میں عبادت کے بجائے کسی اور چیز میں مشغول ہونے سے تنبیہ کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وعظ ونصیحت ان جیسے مقامات پر ہی مطلوب ہے۔
لہٰذا اس مسئلے میں مطلق جواز یا مطلق بدعیت وعدم جواز کے بجائے تفصیل کی راہ اپنانا بہتر ہے اس طور پر کہ نہ تو جلسے جلوس کے اہتمام کو بھی جائز قرار دیا جائے اور نہ ہی ضرورت کے تحت نصیحت اور تنبیہ کو بھی بدعت قرار دیا جائے بلکہ وسطیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضرورت کے تحت کبھی کبھار مختصر وعظ ونصیحت کو جائز سمجھا جائے۔
ورنہ اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ مطلقاً بدعت ہے تو پھر نماز عصر اور فجر کے بعد سلسلہ وار دروس قرآن وحدیث پر بھی یہی بات فٹ آئے گی اور اس عمل کو بھی بدعت قرار دیا جائے گا کیونکہ یہ چیز بھی مروجہ شکل میں نبی یا سلف سے ثابت نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ان نمازوں کے بعد درس قرآن وحدیث کا اہتمام کرتے تھے۔
No comments:
Post a Comment