تعلیم نسواں کی اہمیت وضرورت
ہمارے ہندوستان کی سر زمین پر خصوصا جھارکھنڈ اور
بہار میں ایک دور (تقریبا پچاس سال پہلے ) ایسا بھی گزرا ہے کہ سمجھدار طبقہ کے گھرانوں میں بنات حوا کی تعلیم بقدر ضرورت یا صرف بنیادی تعلیم دی جاتی تھی اہل حدیث کی بچیاں فقہ محمدیہ اور احناف کی بچیاں بہشتی زیور تک بمشکل کسی طرح پڑھ لیا کرتی تھیں ورنہ عام لوگوں کا عامیانہ تصور یہ تھا کہ صرف بچوں کو تعلیم دی جاے بچیوں کو نہیں لہذا عام بچیاں ناخواندہ ہوتی تھیں !
اگر آپ آج بھی اکثر ماں باپ سےلڑکیوں کی تعلیم پر گفتگو کریں تو ایسا معلوم ہوگا کہ لڑکیوں کے لئے تعلیم کی کوئی خاص ضرورت نہیں انکی خوابیدہ صلاحیتیں دبا دی جاتی ہیں انہیں کسی قابل بھی بننے نہیں دی جاتی جبکہ اولاد کے لئے ماں کی گود پہلا مدرسہ مانا جاتا ہے جب ماں ہی ناخواندہ ان پڑھ ہوں تو اولاد کس حد تک کامیاب ہونگے فیصلہ آپ کے اوپر چھوڑتا ہوں میں اپنی تقریروں میں برابر کہتا ہوں کہ اولاد( چاہے بچہ ہو یا بچی ) کو اگر تحفہ نہ دیا جائے تو وقتی طور پر روےگی لیکن اگر تعلیم نہ دی جائے تو پوری زندگی روےگی لہذا تعلیم بنات حوا کے لئے اسی طرح ضروی ہے جس طرح بچوں کے لئے ہے
قارئین کرام :اللہ رب العالمین ذکور واناث دونوں جنسوں کا خالق ہے دونوں پر یکساں رحم وکرم شفقت ورحمت کا معاملہ کرتا ہےایسا نہیں کہ مرددعا کرے تو قبول عورت کرے تو رد یا ایسا بھی نہیں عورتیں عبادت کرکے دنیا میں کوئی نتیجہ نہ پائینگی یا محنت کریں علم کے لئے اور علم حاصل بھی نہ ہو محنت کریں تربیت میں اور اس کا نتیجہ لا حاصل ہو یہ تو ،،ان ليس للانسان الا ما سعي،، کے منافی سوچ ہے
قارئین کرام :عورت انسانی معاشرہ کا وہ اہم عنصر ہے جسکے بغیر سماج ومعاشرہ کا تصور ممکن ہی نہیں عورت انسانی ترقی کا زینہ اور راز ہی نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کی روح بھی ہے ،عورت عالم انسانی کی بقاء اور اس کے تحفظ کا ضامن -
عورت تعلیم وتعلم سے کوری نہیں عبادت سے مرفوع القلم نہیں عورت پر پردہ کی پابندی ضرور ہے لیکن ضرورت پڑنے پر غزوات و جہاد میں شرکت کی مستحق بھی عورت کی عظمت ووقار کا راز علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ - اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ جب عورت ناخواندہ ان پڑھ ہو تو کائنات میں رنگ بے رنگ ہے ساز کے تاروں سے زندگی کے وہ سب راگ پیدا نہ ہو سکیں گے جو ایک اچھی تعلیم کا ثمرہ اور صالح تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے -
قارئین کرام :قرآن کریم ،احادیث نبویہ اور اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذھب اسلام نے جس قدر خواتین کی تعلیم پر زور دیا ہےوہ کسی دوسرے مذاھب نے نہیں دیا چنانچہ شریعت نے والدین اور خاوند کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اپنی اولاد بچے بچیوں اور اپنی بیویوں کو اسلامی تعلیمات دیں ( یہی بات عصری تعلیمِ پر بھی لاگو ہوتی ہیں). حق وباطل میں تمیز کرنا سکھائیں اور بے راہ روی سے بچائیں جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے ،،يا ايها الذين امنوا قوا انفسكم واهليكم نارا ،،اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچاؤ واضح رہے کہ بچانے کا طریقہ صرف اچھی تعلیم اور صحیح تربیت ہی ہے ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام سے یہ فرمایا تھا ،،ارجعوا الي اهليكم فاقيموا فيهم وعلموهم ومروهم،، صحيح بخاري
جاؤ اپنی بیوی بچوں کی طرف اور انہیں میں رہو اور ان کو دین کی باتیں سکھاؤ اور ان پر عمل کرنے کا حکم دو اسی طرح وہ حدیث بھی ملاحظہ کرلیں ،، قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من عال ثلاث بنات فادبهن وزوجهن واحسن اليهن فله الجنة ابو داؤد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تین بچیوں کی پرورش کی ان کو ادب سکھایا اور انکی شادی کرادی اور انکے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے-
اس حدیث میں بچیوں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے پر والدین کو جنت کی بشارت دی گئ ہے نیز اس حدیث میں بچیوں کی تعلیم وتربیت پر ترغیب بھی دی گئ ہے بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ اپنی خواتین اور بچیوں کو قرآن کریم کے خاص خاص حصوں کی تعلیم دیں مثلا سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں جو ایمانیات اور اصول دین پر مشتمل ہے فتح القدیر للشوکانی میں اضافہ کے ساتھ اس طرح مروی ہے ،،فتعلموهما وعلموهما نساءكم وابناءكم فانهما صلاة وقرآن ودعا ء یعنی ان دونوں آیتوں کو سکھو اور اپنی عورتوں اور بیٹوں کو سکھاؤ کیونکہ یہ دونوں آیتیں نماز قرآن اوردعاء ہیں اسی طرح
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کا نکاح مہر کے عوض چند سورتوں کے سکھانے پر کردینا گویا کہ آپ نے عورتوں کو حق دیا کہ دولت علم کے عوض مال کی شکل میں حاصل ہونے والے سرمایہ سے دست بردار ہوجاے
قارئین کرام : تعلیم نسواں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ خواتین کی ایک جماعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہماری تعلیم کے لئے کوئی انتظام کردیجئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن عورتوں کی تعلیم کے لئے مخصوص کیا جسمیں انکو وعظ کرتے دینی باتوں کا حکم دیتے صحیح بخاری اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے خواتین اسلام میں ارشادات نبویہ کے حصول کا کس قدر شوق اور جذبہ تھا
قارئین کرام :خواتین اسلام نے صرف فن حدیث ہی میں نہیں بلکہ تمام علوم وفنون میں مردو ں کی طرح اپنا لوہا منوایا ہے فن تفسیر ہو یا حدیث ،فقہ ہو یا اصول فقہ،ادب ہو یا بلاغت ان سارے علوم میں جان توڑ خدمت کی ہیں انہیں خواتین اسلام کا دین ہے کہ آج ہمیں نکاح، طلاق، عدت ،نفقہ، نذور ،صدقہ، نماز، روزہ ،حیض ،نفاس ،جماع، مباشرت یا ازدواجی زندگی کا کوئی بھی الجھا ہوا پہلو یا خانگی مشکلات کا حل ہمیں انہیں صحابیات وتابعیات کی مرویات میں ملتا ہے
چنانچہ اسد الغابہ میں 500 خواتین کا تذکرہ ہے جنہوں نے رسول صل اللہ علیہ وسلم سے روایت کئے ہیں بلکہ صحابیات میں حضرت عائشہ ام سلمة وغیرہ تو مشہور محدثہ فقیہ اور مفتیہ تھیں تو تابعیات میں حفصہ بنت سرین عمرہ بنت عبد الرحمن
اسی طرح خواتین نے تصنیفی خدمات میں جان توڑ محنت کی ہیں اور،، الرموز من الكنوز ،،ودیگر کتابیں منصہ شہود پر جلوہ فروز ہوئے
خلاصہ کلام یہ ہیکہ خواتین اسلام کی علمی خدمات ،طبی خدمات، جنگی خدمات اور سماجی خدمات کی تفصیلات ایک ضخیم رسالہ کی متقاضی ہیں
یہ ساری خدمات بنات حوا اپنے حدود اور دائرہ میں رہ کر انجام دیا کرتی تھیں
اسلام کسی بھی مفید علم و فن سے نہ عورتوں کا روکتاہے نا مردوں کو ہر کوئ اپنے اپنے قیود اور حدود میں رہ کر حاصل کر سکتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت اور ہر کوئی اپنی تدریس و تصنیف سے علم کی اشاعت کر سکتا ہے بلکہ اسی تعلیم کے فروغ کے لئے دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی جسے کسی مرد نے نہیں بلکہ ایک خاتون فاطمہ الفہری نے قائم کیا تھا
اللہ تعالی ہمیں بچوں کی طرح بچیوں کو بھی تعلیم سے مزین کرنے کی توفیق دے آمین
No comments:
Post a Comment