Tuesday, May 9, 2023

فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم

           

                                           فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم


وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہ جن کی تعریف خود اللہ رب العزت نے اپنی سب سے مقدل کتاب قرآن مجید میں کی ۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی علی ایم نے بھی متعدد احادیث مبارکہ میں اپنے ان ساتھیوں کی ستائش کی ۔ 

وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کہ جو وحی الہی کے سب سے پہلے مخاطب تھے ۔

 جنہوں نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کے فرامین سنے ۔

جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو یاد کیا اور اسے امت تک پہنچایا۔

جنہوں نے دین اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ حتی کہ اپنی جانوں تک کو قربان کر دیا اور شیوۂ فرمانبرداری کی ایسی مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک پڑھی اور سنی جاتی رہیں گی۔ 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے فضائل و مناقب ذکر کرنے سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ "صحابی" کسے  کہتے ہیں؟

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "صحابی" کی تعریف یوں کی ہے:

الصحابي من لقى النبي صلی اللہ علیہ وسلم  مؤمنا به ومات على الإسلام" 

    یعنی ،، صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالت ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا۔

پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس تعریف کے مطابق ہر وہ  شخص صحابی شمار ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ کی رسالت کو مانتا تھا ۔ پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آگئی ، خواہ وہ زیادہ عرصے تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا یا کچھ عرصے کے لئے ۔ اور خواہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ اور خواہ وہ آپ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ۔ اور خواہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا یا بصارت نہ ہونے کے سبب وہ آپ کا دیدار نہ کر سکا ۔ ہر دو صورت میں وہ " صحابی رسول" شمار کیا جائے گا۔ البتہ ایسا شخص "صحابی" متصور نہیں ہوگا جو آپ پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ۔ [الإصابة في معرفة الصحابة: ج اص ۷۔۸]

 جب ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ "صحابی" کسے کہتے ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کسی انداز میں کیا ہے؟ اور کس طرح ان کی تعریف فرمائی ہے۔ 

  اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَالسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَان رَضِيَ اللهُ عَنهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ نجرى تَحْتَهَا الأَنْهرُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [التوبة : ١٠٠ ] 

   اور مہاجرین وانصار میں سے وہ اولیں لوگ جو کہ ( ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں ) دوسروں پر سبقت لے گئے اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا اور وہ سب اللہ سے راضی ہو گئے۔ اور اللہ نے ان کےلئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی، ان میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔

( اور ) یہی عظیم کامیابی ہے۔"

 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے:

(۱) مہاجرین ، جنہوں نے رب العزت کے دین کی خاطر اپنے آبائی وطن اور مال و متاع کو  چھوڑا اور مدینہ، منورہ کی طرف ہجرت کی۔

(۲) انصار مدینہ، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نصرت ومدد کی اور ان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

 (۳) وہ حضرات جنہوں نے ان سابقین اولین کی اخلاص ومحبت سے پیروی کی اور ان کے نقش قدم پر چلے ۔ ان میں متاخرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ شامل ہیں جو انہیں معیار حق تصور کرتے ہوئے ان کے پیروکار رہیں گے ۔ 

   تینوں قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالی نے انہیں دو خوشخبریاں سنائی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہو گیا ہے، یعنی ان کی لغزشیں معاف کر دی ہیں اور ان کی نیکیوں کو شرف قبولیت سے نوازا ہے ۔ اور دوسری یہ کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے جنات تیار کردی ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔

   محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مغفرت کر دی ہے اور اپنی کتاب میں ان کے لئے جنت کو واجب قرار دیا ہے ۔ ان میں سے جو نیک تھا اس کے لئے بھی اور جو خطا کار تھا اس کے لئے بھی۔ پھر انھوں نے قرآن مجید کی یہی آیت تلاوت کی اور کہا : " اس میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رضا مندی اور ان کے لئے جنت کا اعلان کیا ہے ۔ اسی طرح ان کے پیروکاروں کے لئے بھی یہی انعام ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان کی اخلاص ومحبت سے پیروی کریں۔ [ الدر المنشور :۲۷۲/۴]

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

( لَقَدْ تَابَ اللهُ عَلَى النَّبِي وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيعُ قُلُوبُ فَرِيق مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِم رَءُوْف رَّحِيْم ) [ التوبة : ١١٧]

اللہ تعالٰی نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار کے حال پر بھی ، جنہوں نے تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا ، پر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ، بلاشبہ اللہ تعالٰی ان سب پر بہت شفیق و مہربان ہے۔" اس آیت میں اللہ تعالٰی نے خاص طور پر ان مہاجرین و انصار کی تعریف فرمائی ہے جنہوں نے تنگی کے وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ "تنگی کے وقت" سے مراد جنگ تبوک ہے جس میں تنگی کا عالم یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ کھانے کو کوئی چیز ملتی تھی اور نہ پینے کو پانی میسر تھا، شدید گرمی کا موسم تھا ۔ سوار زیادہ تھے اور سواریاں کم تھیں لیکن اس قدر تنگی کے عالم میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا اور ہر قسم کی تنگ حالی کو برداشت کیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے" تنگی کے وقت" کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: " ہم شدید گرمی کے موسم میں نکلے، راستے میں ہم ایک جگہ پر ز کے جہاں ہمیں شدید پاس محسوس ہوئی جتی کہ ہمیں ایسے لگا کہ ہماری گرد میں شدت پیاس کی وجہ سے الگ ہو جا ئیں گی ۔ اور حالت یہ تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص جب اپنا اونٹ ذبح کرتا تو اس کے گوبر کو نچوڑ لیتا اور جو پانی نکلتا اسے پی لیتا ۔ جب حالت اس قدر سنگین ہوگئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ  نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالٰی آپ کی دعا قبول کرتا ہے، لہذا ہمارے لئے دعا کیجئے ۔ چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ابھی آپ کے ہاتھ واپس نہیں لوٹے تھے کہ ہم پر بادل چھا گئے اور بارش ہونے لگی ۔ پس تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے برتن بھر لئے ، پھر جب ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ بارش تو محض اسی جگہ پر ہی ہوئی تھی جہاں ہم رکے ہوئے تھے ۔ [تفیر القرطبی: ۲۷۹/۸ تفیر ابن کثیر: ۱۵۲۳]

اور حضرت قادة رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے سفر میں کھانے پینے کی اس قدر کمی تھی کہ ایک کھجور کے دو حصے کر کے دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  آپس میں بانٹ لیتے ۔ اور شدت پیاس کو بجانے کے لئے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ہی کھجور کو باری باری چوستے رہتے۔

جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ 

ہم غزوۂ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، اس دوران لوگ شدت بھوک میں مبتلا ہوئے اور کہنے لگے ، اے اللہ کے رسول ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرلیں ۔ تو آپ نے اجازت دے دی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے:

 اے اللہ کے رسول ! اگر یہ اپنے اونٹ ذبح کریں گے تو سواریاں کم ہو جائیں گی ، آپ انہیں حکم دیں کہ ان کے پاس کھانے کی جو بھی چیز موجود ہو وہ ایک جگہ پر اکھٹی کریں ، پھر آپ اللہ تعالٰی سے برکت کی دعا فرما ئیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ٹھیک ہے ۔ پھر آپ نے ایک چادر ( دستر خواں ) بچھانے کا حکم دیا اور لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ موجود ہے وہ اسے لا کر اس چادر پر رکھ دے۔ چنانچہ ایک شخص آتا اور وہ مٹھی بھر مکئی اس پر رکھ دیتا ۔ اور ایک شخص آتا اور وہ مٹھی بھر کھجور اس پر رکھ دیتا۔ اور ایک شخص آتا اور وہ جو کی روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس میں جمع کر دیتا ۔ اس طرح اس دستر خواں پر تھوڑا سا کھانے کا سامان جمع ہو گیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی اور اس کے بعد لوگوں سے کہا : " اب تم اپنے برتنوں میں اس کھانے میں سے لے جاؤ۔" 

چنانچہ فوج کے تمام افراد نے اپنے اپنے برتن خوب بھر لئے اور سب نے پیٹ بھر کر کھانابھی کھایا۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ جو شخص بھی ان دو گواہیوں کے ساتھ اللہ سے ملے گا اور اسے ان کے بارے میں کوئی شک نہیں ہو گا تو اللہ تعالی اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا ۔ 

( مسند احمد : ۱۱/۲ حدیث : ١١٠٩٥، وأصله في صحيح مسلم . كتاب الإيمان، باب الدليل على أن من مات على التوحيد دخل الجنة قطعا :٤٢

web designer faruque dilkash and contact number



No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages

SoraTemplates

Best Free and Premium Blogger Templates Provider.

Buy This Template